افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کے سربراہ مولوی ھیبت اللہ اخونزادہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے تنازعے کے سیاسی حل کے انتہائی زیادہ حق میں ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں طالبان کی عسکری کارروائیاں عروج پر ہیں۔
طالبان نے اپنے سربراہ مولوی ھیبت اللہ اخونزادہ کا بیان عید الاضحیٰ سے چند روز قبل جاری کیا ہے۔ اخونزادہ کے اس بیان کے مطابق، ”عسکری کامیابیوں کے باوجود اسلامی امارات ملک میں ایک سیاسی حل کے انتہائی زیادہ حق میں ہے۔‘‘
طالبان سربراہ کے اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”اسلامی نظام، امن اور سلامتی کے قیام کے لیے جو بھی موقع پیدا ہو گا اسلامی امارات اس کا فائدہ اٹھائے گی۔‘‘
طالبان سربراہ مولوی ھیبت اللہ کے اس بیان میں تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ آیا عید کے موقع پر جنگی کارروائیاں روکی جائیں گی یا نہیں۔
طالبان سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ہفتہ 17 جولائی سے بات چیت کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے فریقین کے نمائندے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملتے رہے ہیں تاہم اس بات چیت میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت یا اتفاق رائے سامنے نہیں آ سکی۔
طالبان سربراہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کا گروپ جنگ کے خاتمے کے لیے حل کی تلاش کے معاملے میں سنجیدہ ہے تاہم انہوں نے ‘اپوزیشن جماعتوں‘ کو وقت ضائع کرنے کا ذمہ دار قرار دیا: ”ہمارا یہ پیغام برقرار ہے کہ غیر ملکیوں پر انحصار کرنے کی بجائے ہمیں ہمارے مسائل آپس میں ہی حل کرنے چاہیں اور اپنے وطن کو موجودہ بحران سے نکالنا چاہیے۔‘‘
ایک طرف طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا ہے تو دوسری طرف ملک بھر میں طالبان کی عسکری کارروائیاں عروج پر ہیں۔امریکی اور غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے قبل طالبان کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان کے زیادہ سے زیادہ حصے کا کنٹرول حاصل کر لیں۔
ایک ہفتہ قبل طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس گروپ کے جنگجوؤں نے ملک کے 85 فیصد علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم خیال یہ کیا جاتا ہے کہ طالبان اس وقت ملک کے 421 اضلاع میں سے نصف کا کنٹرول رکھتے ہیں۔
خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر افغان حکومتی فورسز کو فضائی مدد نہ ملی تو وہ طالبان کی کارروائیوں کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گی۔