بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں مودی حکومت کی طرف سے اسرائیلی اسپائی ویئرکے ذریعہ درجنوں صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کرائے جانے کے انکشاف کے بعد ہنگامہ برپا ہے۔ اس معاملے پر آج پارلیمان کے افتتاحی اجلاس کی کارروائی بھی ملتوی کرنا پڑی۔
اس ہنگامہ خیز انکشاف میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعہ بھارت میں تین سو سے زائد موبائل فون کو ٹارگیٹ کیا گیا۔ جن لوگوں کی مبینہ طور پر نگرانی کی گئی ان میں مودی حکومت کے دو ورزراء، تین اپوزیشن رہنما، ایک آئینی عہدہ دار، چالیس صحافی، تاجر اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں۔
اس فہرست میں شامل بیشتر صحافی یا تو بڑے میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں یا پھرایسے فری لانس جرنلسٹس ہیں جو حکومت کی بعض پالیسیوں اور اقدامات کی کھل کر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ تاہم ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ایمانداری کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس فہرست میں صحافی افتخار گیلانی کا نام بھی شامل ہیں، جوایک عرصے تک ڈی ڈبلیو اردو کے بھارت کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
افتخار گیلانی نے اس تازہ پیش رفت پر ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ” مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں اتنا اہم آدمی ہوں کہ اسرائیلی اور بھارتی انٹلی جنس ایجنسیاں میرا فون ٹیپ کرنے کے لیے اپنا قیمتی وقت، توانائی اور وسائل برباد کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”ایک صحافی کے طور پر ہمیں جو معلومات دستیاب ہوتی ہیں یا ہم جن خبروں پر کام کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں پبلک ڈومین میں موجود رہتی ہیں۔ لیکن یہ یقیناً تشویش ناک بات ہے کہ کوئی آپ کی جاسوسی کر رہا ہو۔ آپ کی نجی گفتگو ریکارڈ کر رہا ہو۔”
افتخار گیلانی فی الحال انقرہ میں مقیم ہیں اور ترکی کی سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں انٹلی جنس ایجنسیاں جاسوسی کے لیے انسانوں کے بجائے اب ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں۔ ایسے میں ہر شخص کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔
گیلانی کے بقول، ”اسی لیے لوگ ایسے بہتر ضابطوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن سے بے گناہ شہریوں کو اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کو شکار بننے سے بچایا جاسکے۔”
اپوزیشن جماعتوں نے اس مبینہ جاسوسی کو آئینی حقوق پر حملہ اور پرائیویسی میں دخل اندازی قرار دیا ہے۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر کانگریس کے رہنما آنند شرما کا کہنا تھا، ”یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ یہ آئینی جمہوریت کی خلاف ورزی اور شہریوں کی پرائیویسی میں مداخلت ہے۔”
بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے رکن پارلیمان بنوئے وشووم نے کہا کہ ریاستی جاسوسی کے پنجے وزیروں، ججوں، صحافیوں اور اپوزیشن لیڈروں تک پہنچ گئے ہیں۔ پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری کا کہنا تھا، ”ہماری قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔”
راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں پیگاسس جاسوسی معاملے کے پس منظر میں وزیر اعظم مودی کی تقریر پر طنز کرتے ہوئے کہا، ”ہم جانتے ہیں کہ وہ (مودی) کیا پڑھ رہے ہیں۔ آپ کے فون کا سب کچھ”۔
مودی حکومت نے جاسوسی کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”بعض افراد کی حکومت کی طرف سے جاسوسی کرائے جانے کے الزامات کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے اور نا ہی اس میں کوئی صداقت ہے۔ ماضی میں بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے کہ پیگاسس کا استعمال کرکے واٹس ایپ کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی ہے۔ ان خبروں میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی اور واٹس ایپ نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کرکے اس طرح کے الزامات کی تردید کردی تھی۔”
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حالیہ رپورٹ بھی من گھڑت اور خیالی ہے اور اس کا مقصد بھارتی جمہوریت اور اس کے اداروں کو بدنام کرنا ہے۔
پیگاسس اسپائی ویئر فروخت کرنے والی اسرائیلی سرویلینس کمپنی این ایس او گروپ نے بھی بھارتی شہریوں اور صحافیوں کی جاسوسی کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
پیگاسس ایک اسپائی ویئر ہے جسے اسرائیلی سائبر سکیورٹی کمپنی این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز نے تیار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے، جسے اگر کسی اسمارٹ فون میں ڈال دیا جائے تو کوئی ہیکر اس اسمارٹ فون کے مائیکرو فون، کیمرہ، آڈیو، ٹیکسٹ میسج، ای میل اور لوکیشن تک کی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ پیگاسس کے استعمال سے ہیک کرنے والے کو اس شخص کے فون سے متعلق تمام معلومات مل سکتی ہیں۔
کئی ممالک نے اس اسپائی ویئر کو خریدا ہے لیکن اس کے استعمال پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ حکومتیں بظاہر یہ کہتی ہیں کہ اسے خریدنے کا مقصد سکیورٹی کو مستحکم کرنا اور دہشت گردی پر روک لگانا ہے لیکن بہت سی حکومتوں پر پیگاسس کے غلط استعمال کے سنگین الزامات بھی لگ چکے ہیں۔