دَورِآمریت میں تو ویسے ہی انسانی حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں اِس لیے اُس کا ذکر ہی کیا لیکن جمہوری حکومتیں بھی دودھ کی دھلی نہیں تھیں۔ پیپلزپارٹی کا دَور ہو یا نوازلیگ کا، دونوں ادوار میں آمریت نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے کہ آمریت سے جمہوری آمریت کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہی کہ پاکستان میں کبھی بھی اور کسی بھی دَورِحکومت میں جمہوریت کا اصل چہرہ سامنے نہیں آیا۔ اِس کے باوجود پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے ادوار میں جمہوریت کی جھلکیاں ضرور نظر آتی رہیں لیکن ”تبدیلی” کے دَورِحکومت میں تو جمہوریت بحرِبے کنار کی نذر ہو چکی۔ اب تو طوائف الملوکی اور سکھاشاہی کے مناظرجابجا، جمہور کہیں نہ جمہوریت۔ آپا دھاپی، دھینگامُشتی اور بَدانتظامی میں پاکستان اقوامِ عالم میں صفِ اوّل پر۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی بجائے ننگی اور گندی گالیاں رواج پا چکیں۔ قوم کی رگوں سے نچوڑے ہوئے لہو پر پلنے والے اِس قانون ساز ادارے میں اب قانون سازی کی بجائے صدارتی آرڈینینسز سے کام چلایا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ہر جگہ حکومت اور اپوزیشن باہم جوتم پیزار۔ نفرت اب پارلیمنٹ سے نکل کر گھروں تک جا پہنچی۔ وزیرِاعظم نے مجمعٔ عام میں میاں نوازشریف کے نواسے جنید صفدر کے بارے میں ”شُرلی” چھوڑی تو مریم نواز نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے وزیرِاعظم کے بیٹوں کے بارے میں موشگافی کر ڈالی۔ سیانے کہہ گئے ”شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتاہے”۔پہل وزیرِاعظم نے کی، جواب مریم نواز نے دیا اِس لیے مریم نواز کا جرم قابلِ معافی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ماں کے بیٹے کو موردِالزام ٹھہرایا جائے گا تو ماں بھلا کیسے خاموش رہ سکتی ہے۔
حقیقت یہی کہ جمہوری ادوار میں حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں ملک وقوم کی بھلائی کا سوچتے ہیں لیکن یہاں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میدانِ سیاست نہیں میدانِ جنگ میں دو متحارب گروہ زورآزمائی کر رہے ہوں۔ مریم نواز کے جواب میں بَدزبان، بَداخلاق اورذہنی معذور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے آزادکشمیر میں اپنی تقریر کے دوران جو کچھ کہا وہ انتہائی قابلِ نفرت اور لائقِ تعزیر۔ شاید اُس مخبوط الحواس کو ادراک ہی نہیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور جو بیٹیوں کے بارے میں ایسے الفاظ کہتا ہے اُسے کمترین الفاظ میں لازمۂ انسانیت سے تہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہم نے آج کا عنوان طوائف الملوکی اِس لیے باندھا کہ موجودہ حکومت اداروں کا احترام تو کجا اُنہیں جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتی۔ علی امین گنڈاپور کی ایسی ہی تقریروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر آزادکشمیر نے گنڈاپور کی جلسے جلوسوں میں شرکت اور تقاریر پر پابندی عائد کر دی۔ چیف الیکشن کمشنر نے جمعہ 16 جولائی کو چیف سیکرٹری آزادکشمیر کو لکھا کہ وفاقی وزیر دانستہ کشمیر کے انتخابات کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ اُن کے افعال کی وجہ سے نہ صرف امن وامان کا مسٔلہ پیدا ہو رہا ہے بلکہ انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اُنہوں نے مراسلے میں لکھا”گنڈاپور اپنے جلسے جلوسوں میں نہ صرف نا شائستہ کلمات ادا کر رہے ہیں بلکہ حکومتِ پاکستان کے سرکاری وسائل کا تاثر دیتے ہوئے اربوں روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ اُن کے خلاف ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی آر بھی کَٹ چکی ہے”۔ گنڈاپور کی پیسے بانٹتے ہوئے ایک ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے۔ کیا یہ سِکھا شاہی کی انتہا نہیں کہ جس شخص کو آزادکشمیر کے الیکشن کمیشن نے کشمیر بدر کر دیا وہ نہ صرف آخری دن تک جلسے جلوسوں میں شرکت کر تا رہابلکہ اپنی تقریروں میں انسانیت کی تذلیل کرنے اور مخالفین کو اشتعال دلانے کا ہر حربہ بھی استعمال کر رہالیکن اُسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وزیرِاعظم پاکستان بھی خاموش حالانکہ گنڈاپور اُنہی کی کابینہ کا ایک فرد ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خاں تحریکِ انصاف کے مضبوط ترین سربراہ ہیں اور گنڈاپور تحریکِ انصاف ہی کا ایک رکن۔ اگر عمران خاں چاہتے تو گنڈاپور کو شٹ اَپ کال دے سکتے تھے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جس کی بنا پر لوگ یہ کہتے پائے گئے کہ گنڈاپور سب کچھ عمران خاں کی شہ پر کر رہا ہے۔
الیکشن کمشنر نے چند روز قبل آزادکشمیر میں علی امین کے انتخابی مہم پر پابندی کے علاوہ اُسے کشمیر کی حدود سے نکل جانے کا حکم بھی دیا۔ اِس پابندی پر عمل درآمد یوں ہوا کہ 4 اُمیدواروں نے پابندی کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اُس کے لیے جلسوں کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ اُن میں شرکت بھی کی۔ اِس شرکت پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرنے اُن چاروں اُمیدواروں (عتیق الرحمٰن، خواجہ فاروق، راجہ منصور اور چودھری شہزاد) کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو سفارش کردی۔ اِن اُمیدواروں کا تعلق چونکہ پی ٹی آئی سے ہے اِس لیے پابندی پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادکشمیر کا الیکشن کمیشن بھی 2018ء کے پاکستان کے الیکشن کمیشن جیسا ہی ہے جس کے سربراہ سردار رضاخاں کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا رہا لیکن وہ ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہے۔ایسے الیکشن کمیشن اور الیکشن کے نتائج پر کون اعتبار کرے گا؟۔ بدقسمتی یہ بھی کہ قومی سلامتی کے محافظ بھی اِس حساس ترین علاقے کے الیکشن میں وفاقی حکومت کا ہاتھ نہیں روک رہے۔ مانا کہ زورآوروں کو ”مائنس وَن” فارمولے پر عمل درآمد کے لیے ایک اُمیدوار کی ضرورت تھی۔ اِسی لیے اقتدار کا ہما عمران خاں کے سَر پر بٹھایا گیا جسے قوم نے تسلیم بھی کر لیا لیکن اگر کشمیر جیسے حساس ترین علاقے میں 2018ء کی تاریخ دہرائی گئی تو خدشہ ہے کہ لاوا پھٹ پڑے گا جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے گا۔
کپتان کو اگر سیاسی حرکیات کا معمولی سا بھی ادراک ہوتا اور وہ میدانِ سیاست کے جوہرِ قابل ہوتے تو اپنے 5 سالہ دَورِحکومت میں خیبرپختونخوا کو جنت نظیر بنا دیتے لیکن اُن کا ٹارگٹ کبھی بھی ملک وقوم کی بہتری نہیں رہا۔ اُن کا ٹارگٹ تو ہمیشہ ”شیروانی” رہا اِسی لیے اُنہوں نے جھوٹ کی آڑھت سجاتے ہوئے قوم سے ایسے وعدے کیے جن کا حصول ناممکن نظر آتا تھا۔ ایک طرف تو اُنہوں نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا کے کھڑے ہو گئے۔ اب بھلا آئی ایم ایف جیسا عالمی ساہوکار اُنہیں 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں پر عمل درآمد کی اجازت کیسے دیتا۔ ہوا یہ کہ ہزاروں گھر مسمار کر دیئے گئے جس سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ خیال یہی کہ اِس حکومت کی 5 سالہ مدت پوری ہونے تک بے روزگاروں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ قوم کی تقدیر بدلنے اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا دعویٰ کرنے والے عمران خاں کا دوسرا نعرہ کرپشن کا خاتمہ بھی تھا لیکن ہوا یوں کہ بین الاقوامی سرویز کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ چکی اور اِس کرپشن میں ملوث وہ لوگ جو وزیرِاعظم کے دائیں بائیں۔ کرپشن کا شور مچانے والے کا اپنا حال یہ کہ گزشتہ کئی سالوں سے الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس زیرِالتوا اور اُن کے تاخیری حربے جابجا۔ پشاور بی آر ٹی منصوبہ 25 ارب سے 125 ارب تک پہنچ گیالیکن نیب کو کوئی پرواہ نہ ایف آئی اے کو۔ مالم جبّہ کیس اور خیبر پخونخوا میں کرپشن کی داستانیں چپّے چپّے پرلیکن کوئی پوچھنے والا نہیںکہ پُشت پر خود وزیرِاعظم۔ ملک کے قیمتی وسائل، اثاثے، عہدے اور اختیارات قریبی دوستوں کے حوالے جو غیرممالک سے مالِ غنیمت اکٹھا کرنے آئے اور اِس حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے اپنے بریف کیس اُٹھا کر وہیں لوٹ جائیں گے جہاں سے آئے تھے۔ اب اِس دَور کو طوائف الملوکی اور سکھاشاہی کا دَور نہ کہیں تو کیا کہیں۔