تونس (اصل میڈیا ڈیسک) تونس کے صدر قیس سعید نے کہا ہے کہ انھوں نے دستور پر عمل درآمد کرتے ہوئے حالیہ فیصلے کیے ہیں اور انھوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایسا نہیں کیا ہے۔
قیس سعید نے ایک روزقبل تُونسی آئین کی دفعہ19 کے تحت حاصل ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم ہشام میشیشی کو برطرف کردیا تھا اور پارلیمان کو 30 روز کے لیے معطل کردیا ہے۔
صدرقیس کے سیاسی مخالفین نے ان پر فوج سے مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عایدکیا ہے لیکن انھوں نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔اسلامی جماعت النہضہ کے حامیوں نے ان کے فیصلے کے خلاف پارلیمان پر دھاوا بولنے کی کوشش کی ہے اور دارالحکومت تُونس میں دھرنا دیا ہے۔
تُونسی صدر نے سوموار کو جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں عوام پرزوردیا ہے کہ وہ پُرامن رہیں اور کسی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دیں۔انھوں نے کہا:’’میں تُونسی عوام پر زوردوں گا کہ وہ سڑکوں پر نہیں نکلیں کیونکہ کسی قوم کو سب سے زیادہ جس خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے، وہ اس کا اندرونی دھماکا ہی ہوسکتا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسےہیں جنھوں نے انقلاب کو لوٹ مار میں تبدیل کردیا اور عوام کی منشاء کے ساتھ ڈکیتی کی گئی ہے۔
صدرقیس سعید نے سوموار کی شام سات بجے سے صبح چھے بجے تک کرفیو نافذ کردیا ہے۔یہ کرفیو جمعہ 27 اگست تک نافذالعمل رہے گا اور اس دوران میں شدید بیمارمریضوں اورشب کے وقت کام کرنے والے کارکنان کے سوا کسی کو گھروں سے باہرنکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
صدارتی حکم کے تحت دن کے اوقات میں عوامی شاہراہوں پر یاعوامی چوکوں ، چوراہوں میں تین افراد کے اکٹھا ہونے پر بھی پابندی عاید کردی گئی ہے۔
امریکا نے تُونس میں رونما ہونے والے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہارکیا ہے اور ملک میں امن وامان برقرار رکھنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان جین ساکی نے ایک نیوزبریفنگ میں کہا ہے کہ امریکا تُونس کی سینیرقیادت سے رابطے میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہم وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ سے اعلیٰ سطح سے تُونسی لیڈروں سے رابطے میں ہیں تاکہ ان سے ملک کی صورت حال کے بارے میں مزید جان سکیں۔ہم جمہوری اصولوں کے مطابق تُونس کی آگے بڑھنے کی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
جین ساکی نے کہا کہ وائٹ ہاؤس نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ آیا تُونس میں حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی گئی ہے اوراس کا تختہ الٹا گیا ہے۔وہ امریکی محکمہ خارجہ کے قانونی تجزیے کا منتظر ہے،اس کے بعد وہ تُونس میں وزیراعظم کی برطرفی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا اور صدر کے اقدام کو کوئی نام دے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تُونس کوگذشتہ ایک عشرے کے دوران میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کے سیاسی بحران کا سامنا ہے اور صدر نے فوج کی مدد سے منتخب وزیراعظم کو چلتا کیا ہے ورنہ پہلے 2011ء کے عوامی انقلاب کے بعد سے ملک میں جیسے تیسے جمہوریت کا پہیّا چلتا رہا ہے اور دستور کے مطابق ملک میں انتقالِ اقتدار کاعمل مکمل ہوتا رہاہے۔