افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے سیکریٹری جنرل جینزاسٹولنٹبرگ نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازع طے کیا جائے۔انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد سکیورٹی کی صورت حال بہت ہی چیلنج والی بن چکی ہے۔
جینزاسٹولنٹبرگ نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ’’افغانستان میں سکیورٹی کی نازک صورت حال کے پیش نظر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل کی ضرورت ہے۔نیٹو اتحاد افغانستان کی فنڈنگ ، سویلین موجودگی اور بیرون ملک فوجیوں کی تربیت سمیت معاونت جاری رکھے گا۔‘‘
نیٹو چیف نے افغان صدراشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور ان سے افغانستان کی تازہ صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
افغانستان میں مئی کے بعد سے تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔طالبان نے امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ہی ملک بھر میں افغان فورسز کے خلاف حملے شروع کردیے تھے۔اس وقت افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا کم وبیش مکمل ہوچکا ہے۔
طالبان نے اپنی اس جنگی مہم کے دوران میں افغانستان کے بہت سے اضلاع ، سرحدی گذرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے اور متعدد صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان اگست میں افغانستان میں امریکی فوج کے مشن کے باضابطہ خاتمے کے بعد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔
اس دوران میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات میں لڑائی روکنے اور مستقبل کے حکومتی بندوبست سے متعلق کوئی سمجھوتا طے نہیں پاسکا ہے۔
اقوام متحدہ نے سوموار کو خبردارکیا تھا کہ اگر طالبان نے ملک بھر میں جاری اپنی فوجی مہم جوئی کو نہیں روکا تو عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔اس کے علاوہ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ طالبان کی پیش قدمی اور افغان حکومت پر قبضے سے گذشتہ 20 سال کے دوران میں حاصل ہونے والی تمام کامیابیاں ختم ہوکررہ جائیں گی۔