امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کی بائیڈن انتظامیہ نے بدھ کے روز شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں نئی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکا نے یہ اقدام ایسے وقت میں کیا ہے جب متعدد علاقائی اور بین الاقوامی ممالک شامی صدر اور ان کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی بیرونی اثاثہ جات کنٹرول (او ایف اے سی) کی ڈائریکٹر اینڈریا گاکی نے کہا کہ ’’محکمہ خزانہ اسد حکومت اور اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بشمول شام میں فوجی جیلوں میں حکومت مخالفین پرتشدد کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔گاکی نے صحافیوں کو بتایا کہ شامی جیلوں کے ذمے دارانٹیلی جنس کے پانچ سینئرعہدے داروں کے خلاف پابندیاں عاید کی جارہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بشارالاسد اوران کی ظالم حکومت شام میں تنازع اور تشدد آمیز سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کی یہ کارروائیاں تادیر جاری نہیں رہ سکتی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ شام کے دو مسلح گروپوں کوبلیک لسٹ کرنے کی منظوری دے رہا ہے۔ ان میں سے ایک احرارالشرقیہ کو داعش کی شاخ سمجھا جاتا ہے۔
گاکی نے کہا کہ احرارالشرقیہ نے عام شہریوں خصوصاً شامی کردوں کے خلاف بے شمار جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ان میں غیر قانونی قتل، اغوا، تشدد اور نجی املاک پر قبضے شامل ہیں۔شامی عرب فوج سے وابستہ ملیشیا سرایا العرین پرمحکمہ خارجہ نے پابندی عاید کرنے کی منظوری دی ہے۔
ترکی میں مقیم القاعدہ کے ایک مالیاتی سہولت کار اور شام میں مقیم دہشت گردوں کے لیے رقوم جمع کرنے والے ایک شخص کے خلاف بھی پابندی عاید کردی گئی ہے۔
محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’القاعدہ اور ہیئت تحریرالشام (ایچ ٹی ایس) کی جانب سے عالمی مالیاتی نظام کو استعمال کرنے اور دہشت گردوں کے لیے رقوم جمع کرنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھرتی کی کارروائیوں مسلسل نظررکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بائیڈن انتظامیہ نے مجموعی طور پر آٹھ افراد اور دس اداروں کے خلاف پابندیاں عاید کی ہیں۔امریکا کی قومی سلامتی کونسل میں عراق اورشام سے متعلق امورکی ڈائریکٹر زہرہ بیل نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ پابندیاں ’’شام کے لیے وسیع ترامریکی حکمت عملی‘‘ کا حصہ ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ’’آج کا اقدام کوئی بے ترتیب واقعہ نہیں بلکہ یہ شام میں اس انتظامیہ کی محتاط انداز میں اختیار کردہ حکمت عملی اور اہم ترجیحات کامظہر ہے۔انتظامیہ نے گذشتہ چند ماہ کے دوران میں بڑی احتیاط سے ترجیحات کی نشان دہی کی ہے۔اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ شام میں انسانی حقوق کے ضمن میں امریکی اقدار انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔‘‘