امریکا افغانستان میں موجود رہے گا، امریکی وزیر خارجہ

Anthony Blinken

Anthony Blinken

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود امریکا وہاں موجود رہے گا اور وہ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کے خاطر فریقین میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھارت کے اپنے پہلے سرکاری دورے کے دوران بدھ اٹھائیس جولائی کو اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ وزارتی سطح پر تفصیلی گفتگو کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں کو اپنے جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔

گزشتہ دو عشروں سے افغانستان میں فوجی مہم کے بعد امریکی فورسز اکتیس اگست تک جنگ زدہ ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ امریکی اور نیٹو فوج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن و سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا،”گو کہ ہماری فورسز افغانستان سے واپس جا رہی ہیں لیکن ہم افغانستان میں بہرحال موجود رہیں گے۔ وہاں ہمارا نہ صرف ایک مضبوط سفارت خانہ ہے بلکہ ایسے بہت سارے پروگرام بھی ہیں، جن کے ذریعے ہم افغانستان کی اقتصادی ترقی میں مدد کر رہے ہیں اور سکیورٹی تعاون دے رہے ہیں۔”

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے بیشتر حصے طالبان کے قبضے میں چلے جانے اور اس کے مضمرات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انٹونی بلنکن کا کہنا تھا،”طالبان ڈسٹرکٹ سینٹروں کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے زیادتیوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ یہ انتہائی پریشان کن ہے۔”

امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا،”طالبان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان کی مدد کرے۔ غالباً وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈران دنیا بھر میں آزادی کے ساتھ سفر کر سکیں اور ان کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں۔ لیکن طاقت کے زور پر ملک پر قبضہ کر کے اور لوگوں کے حقوق پامال کر کے وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسائل کو مذاکرات کی میز پر پرامن طریقے پر حل کریں۔”

انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا فغانستان میں مسائل کو حل کرنے کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے خاطر پوری شدت کے ساتھ سفارتی کوششوں میں مصروف ہے اور گزشتہ دو عشروں کے دوران افغان عوام نے، جو کچھ حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھنے اور اتحادی افواج کی ملک سے واپسی کے بعد علاقائی استحکام کے لیے مل کر کام کرتا رہے گا۔

جب ایک نامہ نگار نے انٹونی بلنکن سے پوچھا کہ کیا امریکا افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان پر خاطر خواہ دباؤ ڈال رہا ہے تو اس کا جواب ان کے بجائے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے دیا۔ جے شنکر نے کہا کہ یہ فطری ہے کہ بیس برس تک کسی ملک میں غیرملکی فورسز کے رہنے کے بعد اگر ان کا انخلاء ہوتا ہے تو اس کے مضمرات ہوں گے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ افغانستان کے بیشتر پڑوسی تو وہاں مذاکرات کے ذریعے امن پر متفق ہیں۔ البتہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک خاص ملک کو اس سے دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

مشترکہ پریس کانفرنس میں گو کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا تاہم اس سے قبل انہوں نے ‘سول سوسائٹی راونڈ ٹیبل’ میٹنگ میں انسانی حقوق اور دیگر امور پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ تقریباً پینتالیس منٹ تک تبادلہ خیال کیا۔

انٹونی بلینکن کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا کے عوام انسانی وقار اور سب کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی، قانون کی حکمرانی، مذہبی آزادی اور عقیدے کی آزادی سمیت دیگر بنیادی آزادی، جو کہ ہماری جمہوریتوں کے بنیادی اجزاء ہیں، پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا،”بلاشبہ دونوں جمہوریتیں ترقی کر رہی ہیں اور ایک دوست کے طور پر ہم نے اس بار ے میں بات چیت کی ہے۔”

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں مودی حکومت کی مختلف پالیسیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج اور عوامی ناراضی پر بھی با ت چیت ہوئی۔ بلنکن کا کہنا تھا،”ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت میں تمام لوگو ں کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے اور خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، سب کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جانا چاہیے۔” اس میٹنگ میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے، شہری ترمیمی قانون، تبدیلی مذہب قانون، صحافیوں کی گرفتاری اور پیگاسس جاسوسی معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

سول سوسائٹی راونڈ ٹیبل میٹنگ میں تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے نمائندے گوڈپ ڈان چنگ بھی موجود تھے۔ دلائی لامہ کے نمائندے کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کی ملاقات اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ سن دو ہزار سولہ کے بعد اعلی تبتی قیادت کی کسی امریکی رہنما سے پہلی ملاقات ہے۔ اس سے قبل سن دو ہزار سولہ میں دلائی لامہ نے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ چین کا اس ملاقات پر ناراض ہونا فطری ہے۔ تاہم فی الحال بیجنگ کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ بلنکن کی طرف سے چین میں ‘جمہوری کساد بازاری’ کا ذکر کیے جانے پر بیجنگ نے سخت اعتراض کیا ہے۔

انٹونی بلنکن نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر سے بھی ملاقات کی ہے۔ وہ وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گے اور دیر رات کویت کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔