کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت نے پھر کہا ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد مناسب وقت پر ہی جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔ بھارت نواز کشمیری رہنما حکومت کے اس موقف کو دھوکہ دہی اور فریب بتاتے ہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ نے 28 جولائی بدھ کے روز کشمیر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر کو ریاست کا درجہ دوبارہ مناسب وقت پر اسی صورت میں دیا جائے گا جب وہاں حالات معمول کے مطابق ہو جائیں۔ شیو سینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے راجیہ سبھا یعنی پارلیمان کے ایوان بالا میں اس حوالے سے ایک سوال پوچھا، جس کے جواب میں حکومت نے اپنے موقف پیش کیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت ميں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کو خصوصی آئینی اختیارات دینے والی آئینی شق 370 کو ختم کرتے ہوئے اس کا ریاستی درجہ بھی ختم کر دیا تھا۔ اور ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
بھارتی حکومت نے جب ان اقدامات کا اعلان کیا تھا اس وقت بھی ایوان میں ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا گيا تھا۔ اسی لیے حکومت سے پوچھا گيا تھا آخر حکومت ایسا کب کرے گی۔ وزارت داخلہ نے اپنے مختصر سے جواب میں کہا، ”حالات نارمل ہونے کے بعد مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کرنے پر غور کیا جائے گا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گيا ہے کہ حکومت نے ریاستی آئین کو تبدیل کرنے اور اسے تقسیم کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ نہ صرف ملک بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔ کشمیر سے متعلق ہی بی جے پی کے ایک رہنما کے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اس برس، ‘کشمیر میں شدت پسندانہ کارروائیوں میں تقریبا ساٹھ فیصد کی کمی ہوئی ہے۔‘
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خلاف حکومت نے سخت پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ”اسی لیے سکیورٹی کو مضبوط کرنے، محاصروں اور سرچ آپریشن میں وسعت دینے اور سختی کرنے جیسے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ شدت پسند تنظیموں سے موثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔ سکیورٹی فورسز ان مقامی لوگوں پر بھی سخت نظر رکھتی ہیں جو ممکنہ طور پر شدت پسندوں کی مدد کر سکتے ہيں۔‘‘
بھارت نواز سیاسی جماعتیں مودی حکومت سے سن 2019 کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور وہ اس بیان سے قطعی خوش نہیں ہيں۔ گپکار اتحاد میں شامل عوامی نیشنل کانفرنس کے رہنما مظفر شاہ نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ کشمیر میں تو حالات گزشتہ 35 برسوں سے نارمل نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ”مودی حکومت کی جانب سے یہ دھوکہ بازی اور ایک فریب ہے۔ انہوں نے ایوان میں مکمل ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا، تاہم جس طرح وہ چل رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں کشمیر کو ریاست کا درجہ مل سکے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”کشمیر کو میونسپلٹی کی طرح ٹریٹ نہیں کیا جا سکتا، کشمیر تو ایک ملک رہا ہے۔ اس کے آس پاس تو سپر پاورز ہیں۔ ایک طرف چین، دوسری طرف افغانستان اور پھر پڑوس میں پاکستان ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں مظفر شاہ نے کہا کہ مودی حکومت کی، ”منشا یہ ہے کہ ریاست کا درجہ دیے بغیر ہی انتخابات کرا لیے جائیں۔ گپکار کا موقف واضح ہے کہ پہلے ریاست کا درجہ بحال کنا چائے اور پھر انتخابات۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں جموں، کشمیر، کارگل اور لداخ سمیت سبھی علاقوں کے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ وہ دفعہ 370 اور ریاستی درجے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ ”اب سب نے دیکھ لیا ہے کہ ہمارا تحفظ اسی سے وابستہ ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی اس پر آگے آ کر سماعت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 24 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں بھارت نواز جموں و کشمیر کے 14 رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں تقریباً تمام وہی رہنما شامل ہوئے تھے جنہیں مودی حکومت نے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد قید کر لیا تھا۔
اس میٹنگ کے تقریباً دو ہفتے بعد کشمیر کے بھارت نواز رہنماؤں کے اتحاد ‘پیپلز الائنس فار گپکار‘ (پی اے جی ڈی) نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کُل جماعتی ملاقات پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور دیگر قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرنے اور سن 2019 کے بعد جابرانہ محاصرے اور کشمیر میں دم گھٹنے کا جو ماحول پیدا ہوا اس کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے ليے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
اس وقت بھی مشترکہ بیان میں کہا گيا تھا کہ حکومت نے ایوان میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی: ”اس لیے کسی بھی طرح کے انتخابات سے قبل پہلے مکمل طور پر ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘