جب ایک گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس گھر کی خوشیاں بحال ہو جاتی ہیں ہر سو رونقیں محبتیں بانٹتی یہی بیٹیاں ناجانے کب اتنی بڑی ہو جاتی ہیں کہ ماں باپ کو انکے جہیز کی فکر لگ پڑتی ہے- ایسی کئی بیٹیاں بھی ہیں جو جہیز کی لالچ میں اپنے گھر ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں- ان میں سے کچھ بدنصیب ایسی بھی ہیں جو شادی کے بعد ایک الگ عزاب میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور زندگی بھر شوہر کے ہاتھوں مار کھاتی اور معاشرے میں اپنا مقام ڈھونڈتی یہ بیٹیاں کہی کھو جاتی ہیں- انکے علاوہ ہمارے معاشرے کی وہ بیٹیاں جو ماں باپ کی نظروں سے زرا دیر اوجھل ہوجائے تو ایسے درندوں کا شکار ہوجاتی ہیں جو دن ڈھاڑے کسی بھی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اغوا کرکے اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے۔
چند ماہ سے لیکر ایک جوان لڑکی تک اس وقت کوئی محفوظ نہیں- بہار کی دنیا میں ایسے خوفناک درندے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب کوئی معصوم پھول انکے ہاتھ لگے اور یہ درندے اسے مسل کے رکھ دیں-یہاں تو روڈ پر چلتی ایک لڑکی اب خود کو محفوظ نہیں سمھجتی کہ نہ جانے کب کوئی نا محرم اسکی عزت کو پاش پاش کردے اور نہلے پہ دھلا سوشل میڈیا کا زمانہ کے کوئی ویڈیو وائرل ہوتے دیر نہیں لگتی لوگ آ ں ہئے کرتے لوگ اپنی رائے دیتے ہوئے تبصرے کرتے ہوئے یہ زرا نہیں سوچتے کہ جب یہی ویڈیوز اس لڑکی کے گھر تک پہنچے گی تو مارے شرم کے ماں باپ کا کیا ہوگا کہ انکی معصوم اولاد کی کس حد تک جگ رسائی ہورہی ہے۔مرجائیں گے لیکن بیٹی کے خون کا سودا نہیں کریں گے یہ الفاظ شہر شہر جھانگارا باجارا کے اس باپ کے ہیں جس کی بیٹی کو صرف رشتہ نہ دینے کی بنا پر قتل کردیا گیا-
موٹروے واقعے کی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی کہ بچیوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات نے سانسیں روک دیں، کبھی برقعے میں ملبوس سر تا پا ڈھکی عورتیں پامال ہوئیں اور کبھی اپنے حقوق کے لیے احتجاجی کارڈ اٹھائے نوجوان لڑکیاں۔یہ سب پاکستان میں کب تک چلے گا اور کتنی عورتیں اس دلدل کا شکار ہونگیں،یہ وہ دلدل ہے جس میں عورت کو اسکی مرضی کے بغیر ڈھکیل دیا جاتا ہے،میں یہاں آپکو کتنے ہی نام گنوا سکتی ہوں جہاں ریپ کیسس کو رپورٹ کیا گیا مگر کوئی انصاف نہ ملا-پاکستان میں روزانہ 8 بچوں سے زیادتی ہوتی ہے جبکہ ان میں 51 فیصد بچیاں اور 49 فیصد بچے شامل ہیں۔کیا ہم اس موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں جہاں ہم ہم اپنے معاشرے کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ نہیں بنا سکتے ہیں؟ نہ عورت شہر میں محفوظ ہے نہ تو گاں میں-گاں میں اسے ڈر ہے کہ کہی کسی ایک کو جرگے کے فیصلے کی بھینٹ چڑھنا پڑ سکتا ہے تو دوسری جانب شہر میں عورت اپنے ہی پڑھے لکھے شوہر کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دی جارہی ہیں۔
بچی 3 سال کی ہو یا ہو عورت 33 سال کی جب جب ان وحشیوں پر شیطان سوار ہوا ہے انہوں نے نہ کسی کی اولاد دیکھی نہ تو کسی کی ماں۔ایسے حیوان صفت آدمی دنیا کے سامنے چہرے پر پردہ لگائے شان سے گھومتے نظر آتے ہیں جبکہ جس معصوم صنف نازک کے ساتھ یہ وجود کو ہلا کر رکھ دینے والا شرمناک عمل کیا جاتا ہے وہ بیچاری معصوم عورت اس ایک پل کے بعد ہر ایک سیکنڈ کن ازیتوں سے گزارتی ہے اس کا میں اور آپ تصور بھی نہیں کرسکتے-کن حالات میں اور کن دشواریوں کے ساتھ یہ لڑکیاں زندگی بسر کرتی ہیں اور روز کیسے اس صبر کے ساتھ خود کا سامنا کرتی ہونگی کہ کب انکی زندگی کو خراب کرنے والے مجرم کب قانون کی گرفت میں آینیگے کب انہیں انصاف ملیگا-خواتین پر مزید پابندیاں لگانے سے بہتر ہے کہ ان حیوانوں پر پابندی لگائیں جو ایسے عمل کرتے ہیں۔
اگر حکومت اب بھی اس مجرم کو اگر عبرتناک سزا نہ دی گئی اور اسے معاشرہ کے لئے مثال نہ بنایا گیا تو پھر آئندہ ایسے جرائم کی روک تھام ممکن نہ ہو گی۔حکومت چاہیں جتنے بھی قوانین بنالے جب تک سوچ بدلی نہیں جائیگی تب تک ان مجرموں پر کوئی فرق نہیں پڑیگا اور سوچ صرف انصاف کے ترازوں پر تول کر بدلی جاسکتی ہے،سخت سے سخت سزا۔ کسی کی عزت کو نوچ کر چھین کر اسے موت تک لے جانے والے کی سزا پھانسی سے کم ہرگز نہ ہو۔