افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان جنگجوں اب تقریباً تمام بڑے شہروں میں داخل ہونے لگے ہیں، لڑائی گلیوں اور سڑکوں تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف افغان فورسز طالبان کے اہم ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں سینکڑوں کمانڈوز تعینات کر دیے گئے ہیں اور حکام نے جنوبی شہر لشکر گاہ کے لیے مزید فورسز روانہ کی ہیں جبکہ افغان فضائیہ کے حملوں کی وجہ سے درجنوں لاشیں سڑکوں پر بچھ گئی ہیں۔
مئی کے اوائل میں امریکی قیادت والی غیر ملکی فورسز کے حتمی انخلاء کے اعلان کے بعد سے ہی، جو کہ اب تقریباً مکمل ہونے کو ہے، پورے افغانستان میں جنگ پھیل چکی ہے۔ دیہی علاقوں کے بڑے رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر اور ماضی میں عسکریت پسندوں کے سب سے بڑھ گڑھ قندھار کے ہوائی اڈے پر اتوار کے روز دو راکٹ حملوں کے بعد سے پروازیں منسوخ کرنی پڑیں۔ طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری لی ہے اور کہا کہ حکومتی جنگی طیارے ہوائی اڈے سے ان کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے تھے۔
ہوائی اڈے کے سربراہ مسعود پشتون نے بتایا کہ رن وے کی مرمت کے بعد پروازیں بحال ہوگئی ہیں۔ قندھار کا ہوائی اڈہ اسٹریٹیجک لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس ہوائی اڈے سے طالبان کے خلاف افغان افواج کو لوجیسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔
قندھار ہوائی اڈے پر طالبان نے ایسے وقت راکٹ حملے کیے جب عسکریت پسند کم از کم دو دیگر صوبائی دارالحکومتوں کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ ان میں ہلمند صوبے کا لشکر گاہ بھی شامل ہے۔
ہلمند کونسل کے سربراہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،”شہر کے اندر جنگ ہو رہی ہے اور ہم نے خصوصی فورسز تعینات کرنے کی درخواست کی ہے۔”
طالبان جنگجووں کو شہر سے دور رکھنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز بڑی حد تک فضائی حملوں پر منحصر ہیں جس کی وجہ سے گھنی آبادی والے علاقوں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کے نشانہ بننے کا خطرہ ہے۔
دو لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے ایک رہائشی بادشاہ خان نے بتایا،”شہر کا ایک انچ بھی بمباری سے نہیں بچ سکا ہے اور فریقین کے درمیان اب ‘سڑکوں پر‘ لڑائی ہورہی ہے۔“
انہوں نے مزید بتایا،”آپ گلیوں اور سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوئی دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑے چوراہے پر بھی لوگوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ طالبان نے شہر کے پولیس ہیڈکوارٹر اور گورنر کے دفتر کو بھی گھیر لیا ہے۔”
انسانی امداد کی ایک تنظیم ایمرجنسی کا کہنا ہے کہ لشکر گاہ کے ہسپتال نوے فیصد بھر چکے ہیں۔ درجنوں لاشیں یہاں لائی گئی ہیں۔
ایمرجنسی کے میڈیکل کوارڈینیٹر وکٹر اوروسیوک نے بتایا،”ہمیں پوری رات اور آج صبح بھی بمباری کی آوازیں سنائی دیتی رہی۔ چھوٹی بندوقوں، مشین گنوں، اسنائپرز اور توپوں کی آوازیں بھی مسلسل آ رہی ہیں۔”
ادھر ہرات میں بھی شہر کے نواحی علاقوں میں رات بھر لڑائی ہوتی رہی جبکہ افغان فورسز نے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔
ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا کہ فضائی حملوں میں تقریباً ایک سو جنگجو مارے گئے ہیں۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ طورپر تصدیق کرنا مشکل ہے۔
اتوار کے روز وزارت دفاع نے کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے سینکڑوں کمانڈوز ہرات بھیجے گئے ہیں۔
افغان سکیورٹی فورسز کے ترجمان اجمل عمر شینواری نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ان تینوں صوبوں میں خطرہ تو بہت زیادہ ہے لیکن ہم ان حملوں کو ناکام بنانے کے تئیں پرعزم ہیں۔”