بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) بیلاروس کے ایک جلاوطن کارکن یوکرائن میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اب اس کارکن کی لاش ایک پارک سی ملی ہے، جہاں بظاہر اسے پھانسی دی گئی ہے۔ پولیس نے اس کیس میں ممکنہ قتل کے حوالے سے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
ویٹالی شیشوف اس تنظیم کے بانی تھے، جو بیلاروس کے ان افراد کو فرار ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے، جنہیں حکومتی ظلم کا سامنا ہو۔ پیر کے روز ویٹالی شیشوف کی پارٹنر نے پولیس کو اطلاع فراہم کی تھی کہ وہ چہل قدمی کرنے گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔
پولیس کے مطابق انہوں نے اس کیس کی بطور قتل تفتیش شروع کر دی ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق ایسا بھی ممکن ہے کہ قاتلوں نے بظاہر اسے ایک خودکشی قرار دلوانے کے لیے جائے وقوعہ پر شواہد میں ردو بدل کی ہو لیکن وہ اس پہلو کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں۔
ویٹالی شیشوف گزشتہ برس ان مظاہروں میں بھی شریک تھے، جو بیلاروس حکومت کے خلاف تھے۔ اس کے بعد وہ فرار ہو کر یوکرائن پہنچ گئے تھے۔ ان کے ایک دوست کے مطابق ویٹالی کو یہ شک رہتا تھا کہ ان کا مسلسل پیچھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب انہیں یوکرائنی ادارے اس حوالے سے بھی آگاہ کر چکے تھے کہ انہیں اغوا یا پھر قتل کیا جا سکتا ہے۔
آج پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”بیلاروس کے شہری ویٹالی شیشوف گزشتہ روز لاپتہ ہو گئے تھے تاہم آج ان کی لاش کییف کے ہی ایک پارک سے ملی ہے، جہاں پھانسی کا پھندہ ان کے گلے میں تھا۔ یہ پارک ان کی رہائش گاہ کے قریب ہی ہے۔‘‘
گزشتہ برس متنازعہ انتخابات کے بعد بیلاروس کے صدر الیگزانڈر لوکاشینکو کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یورپی یونین کی حمایت مظاہرین کے ساتھ تھی۔ اس کے بعد جب حکومت نے ان مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو بہت سے مظاہرین فرار ہو کر یوکرائن، پولینڈ اور لیتھوانیا پہنچ گئے تھے۔
ویٹالی شیشوف یوکرائن میں ‘بیلاروسین ہاؤس ان یوکرائن‘ نامی تنظیم چلا رہے تھے۔ یہ تنظیم حکومت کے ناقدین کو رہائش، ملازمت اور قانونی مشاورت فراہم کرتی ہے۔