اب دوسال بعد پھر ٥ اگست آ گیا ہے۔ جب ہٹلر صفت مودی کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کے آئین کی خصوصی شق٣٧٠ اور ٣٥ اے کو ختم کر کے اُسے تین حصوں میں بانٹ کر بھارت میں ضم کر لیا۔ اس سے قبل ٥فروری بھی آتا رہا۔ جو یکجہتی کشمیر کے طورپر قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر ١٩٩٠ء میں حکومت پاکستان نے قومی سطح پر منانا شروع کیا ہوا ہے۔اس سے قبل ١٩٤٧ء بھی آتا رہا۔جب بھارت نے جموں وکشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر کشمیریوں کو غلام بنا لیا تھا۔ کشمیریوں،قبائلیوں اور پاکستانی فوج نے گلگت بلتستان اور موجودہ تیس سو میل لمبی اورتیس میل چوڑی آزاد کشمیر آزاد کرائی تھی۔ اس کے علاوہ کشمیر پر پاکستان بھارت کی جنگیں ١٩٦٥ء ١٩٧١ء اور کارگل ١٩٩٩ء کے دن بھی آتے ہیں۔ ان موقعوں پر ہمارے سیکولر حکمرانوں کے غلط پالیسیوں اور اقدام کی وجہ سے پاکستان کو پسپائی کے دن دیکھنے پڑے۔ وہ دن بھی آتاہے کہ جب بھارت نے شملہ معاہدے کے خلاف دردی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے علاقہ سیاچین کی چوٹیوں پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔جس کے لیے ڈکٹیٹر جرنل ضیاالحق نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہاں تو گھاس بھی اُگتی۔یہ سارے دن آتے رہیں گے اور پاکستان کی کشمیر بارے پالیسیاں کمزور سے کمزور ہوتی جائیں گی۔
ہٹلر صفت بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کرتا رہے گا۔ حتہ کہ’ ‘اللہ نہ کرے” کہ بھارت یہودی جرمن قومیت کی برتری کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی پوزیشن پر لے آئے۔ جیسے جب آریوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعدہندوستان کے قدیم باشندوںداروڑوں کو مار مار کے ان کی زمنیوں، کاروبار اورمعاشرے کا سوشل اسٹیٹس چھین کرہندووں کے ذات پات کے سب سے نچلی پوزیشن ،شودر کی سطح پر پہنچا دیا تھا۔ جو اب بھی برہمنوں کے ظلم و ستم کا نشانا بنتے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ قائد اعظم کے دو قومی نظریہ اور اسلامی وژن سے انحراف کی وجہ ہے۔ آج کے کالم میں اس پر تجزیہ کرتے ہیں۔سب سے پہلے مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظم کی وفات کے بعد اُن کے اسلامی وژن سے بغاوت کی۔ قائد اعظم نے اپنی شاندار، پر امن اورمثالی تحریک پاکستان کے دوران براعظیم کے مسلمانوں اور اللہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ہمیں علیحدہ ریاست پاکستان عطا کی جائے،ہم اس میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نظام حکومت قائم کریں گے۔
اس وعدے پر برعظیم کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے مثل مدینہ ریاست پاکستان عطا کی تھی۔قائد اعظم نے پاکستان بنتے ہی اسلام کے عملی نفاذ کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ نو مسلم علامہ اسدکو ایک ادارہ،ریکنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ((reconstruction of islamic thought کے نام سے بنا کر اُس کا ہیڈ مقرر کیا۔ اس ادارے کے لیے قائد اعظم نے خود ایک خط وزارت مالیات کوفنڈ مختص کرنے کے لیے لکھا تھا۔ایک قادیانی بیروکریٹ نے اسے چھپائے رکھا اور منزل پر نہیں پہنچنے دیا۔ اس کو اُوریا مقبول جان مسلم اسکالر نے پرانے ریکارڈ سے نکال کر پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا۔ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے علامہ اسد کو اسلامی نظام کے عملی نفاذ سے ہٹا کر بیرون ملک سفیر بنا دیا۔ اسلامی نظام کے لیے، اسلامی آئین، معیشت اور عدلیہ کے لیے کیے گئے اس کے سارے کام کو لپیٹ کر رکھ دیا۔قائد اعظم نے اپنے زندگی میں سید ابو الا اعلی مودودی کو ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے رہنما اصول بیان کرنے کو کہا۔ سید مودودی نے ریڈیو پاکستان سے پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے عملی نفاذ کے لیے اصول بتائے مگر اس پر بھی مسلم لیگ کی حکومت نے عمل نہیں کیا۔سب سے پہلے مسلم لیگ کے حکمرانوں نے قائداعظم کے اسلامی وژن سے انحراف کیا۔ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کے راستے کو چھوڑا۔کہا کہ چودہ سو سالہ اسلامی نظام اب قائم نہیں ہو سکتا۔کس فرقہ کا اسلام نافذ کیا جائے۔
اس پر سید مودودی اور قائد اعظم کے رفیق کار مولانا شبیر احمدعثمانی نے ٣٢علماء کو اکٹھا کر کے٢ ٢ نقاط مسلم لیگ حکومت کے سامنے رکھے۔ اسلامی دستور کی مہم چلائی ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کی اساس قراداد پاکستان کے آئین میں شامل کیا۔پھر ذوالفقار علی بٹھو نے پیپلز پارٹی بنا کرقائد اعظم کے اسلامی وژن سے بغاوت کر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح پاکستان کی کشمیر پالیسی کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔ کشمیر ہندوستان کی تقسیم کے بین الاقوامی معاہدے کہ ،جہاں ہندواکثریت ہے وہاں بھارت اور جہاں مسلم اکژیت ہے وہاں پاکستان بنے گا۔اس بین ا لاقوامی معاہدے کے مطابق جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اسی لیے بانی پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں پاکستان بھارت جنگ کو ختم کرنے اور کشمیریوں کو امن قائم ہونے پررائے شماری کے حق دیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ اقواممتحدہ نے رائے شماری کے لیے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا۔ مگر بعد میں بھارت اس سے مکر گیا۔ اور کشمیر پر اپنا قبضہ مکمل کرتا گیا اور ٥ فروری ٢٠١٩ء کو مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا۔اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کر کے اسے بھی غلام بنانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اگر قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان میں سیکولر حکومت کے بجائے اسلامی حکومت قائم کی جاتی تو اب تک کشمیر آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہو گئی ہوتی۔ پاکستان مکمل ہوگیا ہوتا اور نہ ہی بھارت پاکستان کے دو ٹکڑے کر سکتا۔ بھارت نے پاکستان بنتے وقت کہا تھا کہ اب تو پاکستان مذہب کے نام پر بن رہا ہے۔ ہم پاکستان بننے کے بعد اسے سیکولر بنا کر ،واپس اکھنڈ بھارت میں شامل کر لیں گے۔ وہی ہوا بھارت نے اس پر کام شروع کیا اور پاکستانی حکمرانوں کو سیکر لر بنانے کے لیے خاموشی سے کھربوں روپے صرف کیے۔ ثقافت اور کلچر اور گانے بجانے والوں کے وفود کے تبادلہ کے نام پر ہندوانہ کلچر پاکستان میں عام کیا۔ امریکا نے بھارت سے مل کر پاکستان کے نوجوانوں میںالیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پر فحاشی، بے حیائی اور عریانی عام کی۔ اس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہیں۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو پیپلز پارٹی بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے پاکستانی دورے کے موقعہ پر اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ ہٹاتی اورنہ ہی خالصتان بنانے والے سکھ حیریت پسندوں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کرتی ۔ نواز شریف نے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے بر خلاف لاہور میں١١ اگست ٢٠١١ء کو کہا کہ ہم مسلمان اور ہندو ایک ہی قوم ہیںہمارا ایک ہی کلچر اور ایک ہی ثقافت ہے ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔درمیان میں صرف ایک سرحد کا فرق ہے۔
Nawaz Sharif and Quaid-e-Azam
جبکہ قائد اعظمنے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء لاہور کا فرمایا:۔ہم مسلمان ہندو دں سے علیحدہ قوم ہیںہمارا کلچر، ہماری ثقافت،ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا،ہمارا معاشرہ سب کچھ ان سے یکسر مختلف ہے۔ نواز شریف خود کو علانیہ سیکولر کہتے ہیں۔ بھارت کے سلامتی کے مشیر اجیل دوت کہتا ہے کہ ہم نے نوازشریف پر انوسٹمنٹ کیا ہواہے۔ا سے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ نواز شریف نے بھارت کے پاک فوج مخالف بیانیہ کو تقویت پہنچائی۔اس نے پاکستان کی مایا ناز فوج جس نے پاکستان سے دہشت گردی ختم کے خلاف شہروں شہر جلسے، جلوس اور ریلوں کے ذریعے اپنے ووٹروں کو فوج و عدلیہ مخالف بنایا۔یہ نواز شریف کی تاریخی غلطی کرتا ہے۔ کیا بھارت کے بیانیہ کو تقویت پہنچانے کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟ بیان کردہ شواہد تو پیپلز پارٹی اور نواز شریف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے پاک فوج بیانیہ کو تقویت پہنچانے کو ثابت کر رہے ہیں۔
پاکستان کی ساری حکومتیں بھارت کی چال میں پھنس کر مذاکرات مذاکرات کھیلتی رہیں۔ جب تک حریت کانفرنس کے لیڈرسید علی گیلانی اور جماعت اسلامی پاکستان کے مؤقف کہ بھارت سے مذاکرات سے پہلے بھارت سے مسئلہ کشمیر کو متنازہ تسلیم کرے ۔اقوام متحدہ کی رائے شماری کی قراردادوں پر عمل کے لیے مذاکرات کرے۔ اور کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہونا چاہے۔ موجودہ حکمران عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے پہلے بھی بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو ایک مدت کے لیے سیز کر ددنیا چاہیے۔١٩٩٩ء کی کارگل جنگ کی کامیابی نواز شریف نے امریکا جا کر جنگ ہار دی ۔
جب شملہ معاہدے کی خلاف وردی کر کے بھارت نے سیاچین پر قبضہ کیا تھا ۔ پاکستان کہہ سکتا تھا کہ بھارت کی طرف سے یہ شملہ معاہدے کی خلاف دردی ہے۔ پہلے بھارت سیاچین خلالی کرے پھر پاکستان کارگل کی چوٹیوںخالی کرے گا۔پاکستانی فوج سری نگر سیاچین شاہرہ پر قبضہ کر کے سیاچین پر بھارتی فوج کی رسد روک کر سیاچین سے بھارتی فوجوں کو ہٹوا سکتی تھی ۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے ذاتی عناد کی وجہ سے نواز شریف نے شاندار موقعہ ضائع کیا۔١٩٧١ء کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے مقبوضہ جموں کشمیر جماعت اسلامی کی حذب المجائدین کے امیر اور دس جہادی پارٹیوں کے سپریم کمانڈرپیر سید صلاح الدین نے پاکستانی حکمرانوں سے ملاقات کر کہا تھا کہ اگر بھارت نے مشرقی پاکستان میں ١٠٠ فیصد حالات خراب کرکے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھا تو اب ہم نے مقبوضہ کشمیر میں ٥٠٠ سو گنا زیادہ حالت خراب کر دیے ہیں۔ پاکستانی فوج آگے بڑے اور کشمیر حملہ کر کے پر قبضہ کر لے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سید صلاح الدین کو جواب دیا تھا کہ اس طرح بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا۔
کیا ایٹمی اور میزائل قوت کے حامل پاکستانی مسلمان حکمران ایسے بزدل ہونے چاہییں؟۔ اے کاش !کہ اگر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت اور اسلامی حکمران ہوتے توایسا جواب نہ ہوتا اور اب تک کشمیر آزاد ہو گیا ہوتا؟صاحبو! جب تک اُس بھارت کے ساتھ کہ جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ آزاد کشمیر گلگت بلتستان کو بزور قبضہ کرنا چاہتا ہے، کے ساتھ معذرتانہ رویہ ختم کر کے جارحانہ رویہ اختیار کر کے بھارت کو پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کے اپنے ڈاکٹرائین سے روکا نہ جائے، اس وقت کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنے چاہییں۔عمران خان پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی فورم پر اُٹھانے پر گفتار کا غازی تو بن گیا مگر کردرار کا غازی بننے کی صلاحیت سے خالی نظر آتا ہے۔ آج بھی اگر تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کر دی جائے، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکمات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق نازل کرتا اور زمیں اپنے خزانے اُگل دیتی۔ اللہ تعالیٰ سے سچا وعدہ کس کا ہو سکتا ہے۔ل
ہٰذا پاکستان میں فوراً اسلامی حکومت قائم کر کے بھارت کو الٹی میٹم دے دینا چاہیے کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کے اپنے بیانیہ سے روجوع کرے ورنہ مثل مدینہ ایٹمی اور میزائل قوت بھارت کو اعلانیہ کہہ دے کہ اگر پاکستان نہیں توپھر بھارت بھی نہیں۔ مگر یہ کام سیکولر حکمرانوں کے بس کا نہیں۔ یہ کام وہ حکمران کر سکتا ہے جس کی دل میں اللہ کا خوف ہو انسانوں کا خوف نہ ہو۔ وہ طارق بن زیاد جیساکشتیاں جلانے والا ہو۔ وہ سعد بن ابی وقاص جیسا ہی مسلم کمانڈر ہو کہ کے جس وقت دریاتغیانی پرہو اور اپنے گھوڑے اس میں ڈال ڈال سکتا ہے، اور ایرانی فوجیں کہیں دیو آمد اوربھاگ جائیں۔ وہ ٹیپو سلطان جیسا ہو۔ جو کہتا ہو گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک سالہ زندگی بہتر ہے۔ ایک اسلامی ریاست ہی کے ہاتھوں ہی کشمیر آزاد کروا کر پاکستان کی تکمیل ہوسکتی ہے اور٥اگست ٢٠١٩ ء جیسے دن نہیں آسکتے۔ان شاء اللہ۔