ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران ، پانی اور بجلی کی قلت سے لے کرافراط زر کی آسمان چھوتی شرح اور جوہری کشیدگی سمیت اس وقت ملکی اور بین الاقوامی محاذ پر متعدد چیلنجز سے دوچار ہے۔ کیا صدر ابراہیم رئیسی ان چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے باضابطہ توثیق اور اعلان کے بعد ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی آج ایرانی پارلیمان میں ملک کے چھٹے صدر کے طور پر حلف لے رہے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی جائے گی۔
بدھ کے روز نومنتخب صدراور قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی نے رسمی طورپر حلف لیا۔ اس سے قبل آیت اللہ علی خامنہ ای کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی پسند کے بعد میں سمجھدار، قابل، تجربہ کار اور مقبول رہنما ابراہیم رئیسی کو اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر بناتا ہوں۔
ابراہیم رئیسی نے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی جگہ لی ہے۔ جن کے دور اقتدار میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا اور جسے بحا ل کرنے کی کوشش جاری ہے۔
ابراہیم رئیسی ایسے وقت میں ملک کا اقتدار سنبھال رہے ہیں جب ایران کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک میں ایک طرف پانی اور بجلی کی قلت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ایٹمی معاہدے کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے، جس سے امریکا سن 2018میں یک طرفہ طورپر دست بردار ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ٹینکر پر حملے کے واقعے کا الزام امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے ایران پر عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے حالانکہ ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ایران اس وقت نصف صدی سے زیادہ عرصے میں پہلی مرتبہ بدترین خشک سالی سے دوچار ہے۔ پانی اور بجلی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ کورونا وائرس کی وبا بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس دوران امریکی پابندیوں کی وجہ سے افراط زر آسمان چھو رہی ہے۔ بیشتر ایرانی خود کو بے حال اور بے بس محسوس کررہے ہیں۔
ایران کے مختلف حصوں میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خوزستان صوبے میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق نئے صدر کے آنے کے بعد حالات میں کوئی بہت زیادہ بہتری آنے کی امید بہت کم ہے۔
امریکاکے تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں ایرانی امور کی ماہر ثنا آزادی کا کہنا ہے،”رئیسی اور ان کی حکومت کو کئی بڑے قومی اور بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
ایرانی امور کی ماہر ثنا آزادی کہتی ہیں،”ابراہیم رئیسی نے انتخابی مہم کے دوران بہت سارے وعدے کیے تھے۔ ان میں اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانا بھی شامل ہے لیکن اس کے لیے امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کا پہلے ختم ہونا ضروری ہے۔”
ثنا کہتی ہیں کہ ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہونے سے پہلے تک ملکی عدلیہ کے سربراہ تھے اور انہیں خارجہ پالیسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔”صدر حسن روحانی کے دورمیں محمد جواد ظریف وزیر خارجہ اور جوہری مذاکرات کے انچارج تھے۔ ظریف نے بیس برس سے زیادہ عرصہ امریکا میں گزارا تھا اور انہیں اقوام متحدہ میں سفارت کاری کا بھی طویل تجربہ ہے۔ وہ امریکا اور امریکی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن رئیسی حکومت میں ظریف جیسے تجربہ کار غیرملکی امور کے ماہر کی عدم موجودگی محسوس کی جائے گی۔ میرے خیال میں یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔”
گوکہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے فریقین کے درمیان ویانا میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم ایران اور امریکا اپنے اپنے موقف پر مصر ہیں۔ تہران چاہتا ہے کہ امریکا پہلے پابندیاں ختم کرے جبکہ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ایران پہلے اپنے وعدوں کا عملی ثبوت پیش کرے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے حال ہی میں کہا تھا کہ ایران کو جوہری معاہدے میں واپس لوٹنے کے لیے غیر معینہ وقت نہیں دیا جا سکتا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ علی باقری کنی ایران کے نئے وزیر خارجہ بنائے جا سکتے ہیں۔ 54سالہ باقری ایرانی عدالت عظمیٰ کے نائب سربراہ رہے ہیں اور رئیسی کے ساتھ کام کرچکے ہے۔
صدارتی الیکشن میں رئیسی کی کامیابی کے بعد باقری کنی کو وزارت خارجہ میں بھیج دیا گیا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں وہ وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ میٹنگوں میں شریک رہے۔
باقری وزارت خارجہ کے لیے نئے نہیں ہیں۔ سخت گیر صدر محموداحمدی نزاد کے دور میں باقری کنی خارجہ پالیسی کے ماہر سعید جلیلی کے نائب رہ چکے ہیں۔ جلیلی نے ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سن 2007سے 2013 کے درمیان یورپی یونین کے ساتھ جوہری مذاکرات میں چیف مذاکرات کار کے طورپر خدمات انجام دی تھیں۔جلیلی کے سخت موقف کی وجہ سے یہ مذاکرات ناکام رہے تھے۔
جب اعتدال پسند صدر روحانی نے عہدہ سنبھالا تو بات چیت آگے بڑھی اور فریقین کے مابین جوہری معاہدہ ہوا۔ لیکن جلیلی نے معاہدے کے لیے بہت ساری رعائتیں دینے کا الزام لگاتے ہوئے روحانی انتظامیہ پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ باقری بھی اس معاہدے پر تنقید کرتے رہے ہیں اس لیے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ باقری سے بھی بہت زیادہ توقعات مناسب نہیں ہے۔
باقری کنی نے تہران کی امام صادق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں طلبہ کو سخت مذہبی بنیادوں پر امتحان لینے کے بعد داخلہ ملتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر رئیسی کے دور میں شہری اور انسانی حقوق کے محاذ پر کسی بہتری کی امید کم ہے۔ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنے والے سماجی کارکنوں، حکومت کے ناقدین اور غیر حکومتی تنظیموں (این جی او) کے اراکین کو اپنی زندگی اور آزاد ی پر خطرہ برقرار رہے گا۔
حکام سماجی کارکنوں کو خاموش کرنے کے لیے ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور انہیں جیل میں ڈالنے کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
تہران میں خواتین اور انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”سول سوسائٹی رئیسی پر اعتماد نہیں کرتی ہے۔ رائے دہندگان کی اکثریت رئیسی کو نہیں چاہتی تھی۔ انہیں گذشتہ چار عشروں کے دوران رئیسی کی طرف سے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے ارتکاب کا علم ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر ایرانی رئیسی سے غیر مطمئن اور ناراض ہیں۔