شمع محفل

Woman

Woman

تحریر : طارق حسین بٹ شان

اس کرہِ ارہ ض پر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہوتا ہے۔اس کی مجبوریوں اور اس کی خواہشوں کا اس میں کوئی گزر نہیں ہوتا۔اس نے جو کچھ بویا ہوتا ہے اسے ہر حال میں کاٹنا ہوتا ہے جس میں کسی کو کوئی مفر نہیں ۔ انسان اپنی حیات میں جو کچھ کرتا رہتا ہے یک دن اسے اس کا حساب دینا ہوتا ہے ۔ اخروی زندگی میں اس کے اعمال جنت و دوزخ کے فیصلہ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لہذا اہلِ ایمان اپنی ساری حیاتی روزِ محشر کی تیاری اور سر خروئی کیلئے وقف کر دیتے ہیں ۔ روزِ قیامت کا خوف اور جوابدہی کا تصور انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔وہ اٹھتے بیٹھے خود کو اس قانون کا پیرو کار بنانے کی کوشش کرتے ہیں جسے انسانوں کی ہدائت کیلئے اللہ تعالی نے نازل کیا تھا ۔اس دنیا میں تین قسم کے قوانین رو بعمل ہیں۔ خدائی قوانین،ریاستی قوانین،عالمی قوانین۔انسان اپنی سہولت اور آسانی کیلئے ہر قانون اور قاعدے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن مالکِ کائنات کے کلمہِ وحی کو دنیا کا کوئی انسان بدلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔احکامِ خدا وندی سے کسی بھی مذہب کے پیرو کاروں کو انکار کی مجال نہیں ہوتی کیونکہ اس سے مذہب کی استوار شدہ ساری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے اور انسان لق و دق صحرا میں تنہا اور بے یارو مددگارہو جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ مذ ہب کی چھتری انسانوں میں طاقت، اعتماد، جرات امانت دیانت اور سچائی کے جذبوں کی آبیاری کرتی ہے اسی لئے سارے انسان مذہبی چھتری کے سائے میں پناہ لیتے ہیں۔خدائی احکامات پر عمل پیرا ہونا یا نہ ہونا اور اس میں حیلوں بہانوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک الگ بحث ہے لیکن عوامی سطح پر ان کا ورد کرنا الگ بات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خدائی قوانین کے انکار کی کسی کو مجال نہیں ہوتی۔جو قومیں خدائی قوانین کی روح کے مطابق عمل پیرا ہوتی ہیں اس دنیا میں امامتِ دنیا سے سرفراز کی جاتی ہیں لیکن وہ قومیں جو خدائی قوانین کا مذاق اڑاتی اورا نھیں اپنے پائوں تلے روھندتی ہیں درماندہ اور بے وقعت قرار پاتی ہیں۔قوموں کی حیات و ممات کا دورانیہ سالوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں ماپا جاتا ہے۔ ،۔

تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہیں کہ خدائی قوانین کا اتباع کرنے والی اقوام اور قوانین کا مذاق اڑانے والی اقوام کی سربلندی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتاہے جبکہ جیت ضابطوں، اصولوں اور قوانین کی پابندی کرنے والوں کا مقدر بنتی ہے ۔مرد اور عورت اس کائنات کی دو انتہائی اہم اکائیاں ہیں۔ان کے بغیر اس کرہِ ارض کا نظام چلناناممکن ہے ۔عوت کا بنیادی کام بچوں کو جنم دینا اور اس کی پرورش کرنا ہے ۔ پرورش خود اتنا کٹھن اور مشکل کام ہے کہ عورت اس فرض سے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک بھی صرفِ نظر نہیں کر سکتی ۔کچھ لوگ عورت کو بچے جننے والی مشین کہہ کر اس کی تضحیک کرتے ہیں جو کہ انتہائی پست ، سطحی اور عامیانہ سوچ کی عکاس ہے۔بچے جننا خدائی امر ہے جو کہ اس کائنات کی بقا کا ضامن ہے اور پھر عورت کی تکمیل ماں جیسیاعزاز پانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔

ہمارے لٹریچر میں بانجھ عورت گالی تصور ہوتی ہے۔ہمارے کلچر میں مرد کا کام معاشی ذمہ داریوں کا چیلنج قبول کرنا اور اپنے خاندان کی کفالت کے فرض سے عہدہ براء ہونا ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے اسے قوام کا خاص مقام عطا کیاہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے (مرد عورتوں پر قوام ہیں) لفظ قوام کو جس طرح غلط معنی پہنا کر عورت پر مار پیٹ،تشدد اور جبرو کراہ کی راہیں نکالی گئیں اسے اہلِ علم نے رد کر دیا ۔تشدد کی داستان تو بہت طویل ہے اور اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے جو کہ قابلِ مذمت ہے۔عورت بنیادی طور پر نرم خو،نرم مزاج ،نازک اندام اور دلکشی کا مرقع ہو تی ہے۔بقولِ اقبال ( وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ) عورت اور مرد اپنی شکل و صورت ، ساخت اور جسمانی خدو خال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں حتی کہ ان کی آوازیں بھی مختلف ہوتی ہیں لہذا اس بات پر اصرار کرنا کہ عورت مرد سے کمتر ہے یا مرد عورت سے بر تر ہے بالکل غیر حقیقی بحث ہے ۔دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اس کار گاہِ انجم کے دمکتے ستارے ہیں۔ ان دونوں کی باہمی رفاقت اور روشنی سے اس کرہِ ارض پر بہاروں اور خوشیوں کی دنیا بسی ہو ئی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ عورت کا مقام گھر کی چار دیواری ہوا کرتا تھا لیکن پھر علم و فن کی روشنی نے عورت کی دنیا میں تبدیلی کا بیج بویا جو آج شجرِ سایہ دار بن چکاہے۔ لبرل ازم،ترقی پسندی اور روشن خیالی کے نئے نعرے متعارف ہوئے جھنوں نے عورت کو آگے بڑھنے کی ہمت عطا کی اور وہ گھر کی چار دیواری کو خیر آبادکہہ کر مرد کی انجمن میں جلوہ افروز ہو گئی۔زمانے کے بدلتے تقاضوں نے عورت کو تعلیی میدان میں اپنے جوہر دکھانے کے مواقع دئے تو اس نے مردوں کی بینڈ بجا دی۔ہر امتحان میں لڑکیوں کی کامیابی کا تناسب لڑکوں سے کہیں زیادہ نکلا حتی کہ پہلی ساری پوزیشنوں پر لڑکیوں نے قبضہ کر لیا۔اب کوئی ایسا میدان اور شعبہ نہیں ببچا جس میں عورت کی شمولیت نہ ہو۔

یورپی سوچ نے مسلم معاشروں کو بالکل نیا رنگ عطا کر دیا ہے اور گھر کی چار دیواری میں مقید خاتون دفتروں، فیکٹریوں ،پلازوں ،شاپنگ مالز،بینک،پولیس ،سکولز دفاع، ،ہسپتالوں،عدالتوں اور میڈیا میں اپنی موجودگی سے انسانیت کی خدمت کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔غربت،تنگ دستی،محرومی ،فاقہ کشی اور حسرت و یاس میں زندگی کے دن گزارنے والے خاندانوں کے پاس لڑکیوں کو نوکریوں کیلئے دفاتر میں بھیجنے کے علاوہ کوئی چارہِ کار نہ تھا لہذا بہت سے لڑکیوں نے خاندانی مجبوریوں کے تحت دفاتر کا رخ کیا کیونکہ خاندان کی بقا کا ان کے پاس یہی ایک راستہ بچا تھا ۔شادی کے بعد اکثر خواتین نوکری کو خیر آباد کہہ دیتی ہیں کیونکہ اس سے سنگین معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی نگہداشت اور ان کی تربیت کا گھمبیر مرحلہ درپیش ہو تا ہے۔ نوکری جاری رکھیں تو بچے ماں کی محبت ،پیار، نگہداشت اور سر پرستی سے محروم رہ جاتے ہیں چارو ناچار بچوں کو رشتہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا ہے اور اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے اسے پوری قوم بھگت رہی ہے۔

معصوم بچوں کی وہ عمر جو والدین کی محبت ،سر پرستی ، توجہ اور پیار کی متمنی ہوتی ہے اغیار کے رحم وکرم پر رہ جاتی ہے جس سے بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔بچوں کے اندر احساسِ محرومی ،احساسِ کمتری، نفرت، عدمِ برداشت ،کینہ، بغاوت ،ہٹ دھرمی، ضد، غصہ اور انتقام کے جذبات پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے پورا معاشرہ متاثر ہو تا ہے ۔ سکوں کی جھنکار میں کسی کو اس کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ زہردھیرے دھیرے قوم کی رگوں میں سرائیت کر جاتا ہے جس سے معاشرہ سنگدل اور بے حس ہو جاتا ہے ۔ہماری نوجوان نسل احساس، ایثار،قربانی اور مروت جیسے جذبوں سے تہی ہے اور بے حسیی کا شکار ہو گئی ہے ۔وہ جس ماحول میں پروان چڑ رہی ہے اس کے اثرات ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہمیں ان سے شکائت ہے کہ ان کا رویہ معاندانہ ہے لیکن اس میں والدین کے ہاتھوں نظر انداز کئے جانے والے عنصر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔جب نئی نسل کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا تو اس وقت انھوں نے بھی بہت کچھ بھگتا تھا اب ان کی باری ہے تو ہمیں بھی بہت کچھ بھگتنا ہو گا کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ہو تا ہے ۔یورپ اپنے خاندانی یونٹ کو خیر آباد کہہ چکاہے جس سے اس کی معاشرتی،عائلی اور تمدنی زندگی بالکل تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے لہذا ایک سازش کے تحت مسلم معاشروں پر بھی اس بنیادی یونٹ کو تباہ کرنے کیلئے مہلک ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ٹیلیویژن ،میڈیا اور اشتہارات میں عورت کو جس بے ہنگم اور شرمناک انداز سے پیش کیا جا رہا ہے کیا اس سے زیادہ عورت کی تذلیل ہوسکتی ہے؟ کوئی بھی ذی شعور انسان عورت کی آزادی ،تعلیم اور اس کے حقوق کا مخالف نہیں ہے لیکن عورت شمعِ محفل نہیں ہے بلکہ وہ فخرَ انسانیت ہے ، عزت و عفت اور حیاء اس کا زیور ہے اور اسی میں اس کا وقار مضمر ہے۔مرد کی انجمن میں شمعِ محفل بننا اس کی توہین ہے ۔،۔

بقولِ اقبال۔، ۔ (لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی۔،۔ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی ) ۔،۔ (سینہ روشن ہو تو ہے سوز ِ سخن عینِ حیات۔،۔ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی)۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔