کشمیر میں بھارتی کرفیو کے دو سال مکمل

Kashmir Indian Curfew

Kashmir Indian Curfew

تحریر : ڈاکٹر سیدہ ملیحہ بیگم

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کو بھارتی فوج کی جانب سے ناجائز بنیادوں پر لگایا جانے والے لاک ڈﺅن کو آج دو سال ہوچکے۔ اگرچہ کہ ان دو سال سے پہلے 70سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں شدید ظلم و زیادتی جاری تھی۔ اس کے بعد عوام کو اپنے گھروں میں محصور کر کے ان کو بنیادی اشیا کھانا پینا اور علاج معالجے کی سہولت سے بھی محروم کر کے اپنے ظلم و جارحیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔

ان دو سالوں میں ہندوستان کے غیر انسانی اقدام پہ پاکستان کی جانب سے ہر پلیٹ فارم پر مذمت کی جاتی رہی۔ اس کے خلاف اقوامِ متحدہ میں بھی آواز اٹھائی گئی لیکن تمام عالمی انسانی حقوق کے علمبردار حوقوقِ انسانی کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر خاموش رہے۔

نتیجتاً آج 371 دن گزرنے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر وادی لاک ڈاﺅن بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر فوجی محاصرے میں رہا ہے اور کشمیری عوام کی بنیادی آزادیوں پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔انہیں انٹرنیٹ سے محروم رکھنے کے علاوہ محاصرے، سرچ آپریشن اور جعلی مقابلوں سمیت ظلم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔قتل، تشدد، اغوا، غیر قانونی قتل، غیر قانونی حراست، عصمت دری/ چھیڑ چھاڑ، بڑے پیمانے پر بلیک آﺅٹ، بچوں سمیت شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، مسلم اکثریتی آبادی پر ظلم و ستم اور آبادیاتی تبدیلی جموں و کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے ہندوستان کا ترجیحی لائحہ عمل رہا ہے۔

یہ یکطرفہ عمل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھی جو کشمیر کے عوام کو ان کے حق خود ارادیت کی ضمانت دیتی ہیں اور متنازعے علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام رائے شماری کے انعقاد کی سفارش کرتی ہیں۔ یہ علاقہ بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول سے منقسم ہے۔
خبروں کے مطابق صرف اسی سال کے دوران بھارتی قابض افواج نے 85 بے گناہ کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ 537 کشمیریوں کو من مانی طور پر گرفتار کرکے حراست میں لیا اور کشمیری عوام کے 31 مکانات تباہ کر دیے۔

اپنی پاکستان دشمنی کا سبوت دیتے ہوئے ہندوستانی حکومت نے ایک خطرناک چال بھی شروع کی ہے جس کا مقصد ریاست میں آبادیاتی تبدیلی لانا ہے۔ان اقدامات کا مقصد ریاست کی مسلم اکثریت کو زبردستی حاشیہ پر ڈالنا اور کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت سے انکار کرنا ہے۔اس مقصد کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ”ہندوستان کے شہریوں“ کو جموں و کشمیر میں غیر زرعی زمین خریدنے کی اجازت دے دی ہے، بھارت کے ہندوو ¿ں کو کشمیری زمینوں پر آباد ہونے کے لیے مراعات کی پیشکش کی ہے اور اردو زبان کو ہندی سے تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ان اقدامات کو کشمیریوں، پاکستان اور عالمی برادری نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس صورتحال پر اظہار تشویش ہی سامنے آیا ہے لیکن ہر مرتبہ اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ یو این ایس سی کی متعدد قراردادیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا اگست کا بیان اور یو این ایس سی اجلاس وں نے بھارت کو یاد دلایا کہ یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی حدود میں آزاد کشمیر میں جمہوری رواہات کے مطابق پر امن الیکشن ہنے کے بعد نئے وزیرِ اعظم کا اعلان یوا۔ پاکستان سپر لیگ کی طرح کشمیر سپر لیگ منعقد ہوئی ایک لیکن یہاں بھی ہندوستان اپنی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی میں پیچھے نہ رہا۔ کشمیر سپرلیگ میں شامل ہونے والے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو کشمیر لیگ آنے اور کھیل کا حصہ بننے سے برابر روک رہا ہے کیوں کہ اس سے پاکستان کا ایک بہت اچھا امیج پوری دنیا میں جا رہا ہے کہ ایک طرف پاکستان کا کشمیر ہے جس میں اس قدر امن و امان کی صورتحال ہے کہ وہان عالمی کھیل کے مقابلے منعقد ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب انڈیا کا مقبوضہ کشمیر ہے جو گزشتہ دو سال سے ناحق کرفیو اور کئی دہائیوں سے بھارتی مظالم کا شکار ہے۔

کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہمارے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی حمایت میں اسلام آباد کی سفارتی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔پاکستان کشمیریوں کی ہر ممکن سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ان سے وعدہ کردہ حق خودارادیت حاصل کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔

دریں اثنا، کشمیر کا المیہ مسلسل ہمارے سامنے ہے، عالمی ضمیر ابھی تک معصوم شہریوں پر اس کے خوفناک اثرات کا احساس کرنے سے بہت دور ہے۔کیا دنیا کبھی ان کی مدد کے لئے آئے گی؟ صرف وقت ہی بتائے گا۔فی الحال، یہ ضروری ہے کہ اس المناک حقیقت کو بیان کیا جائے اور بار بار بیان کیا جائے۔

تحریر : ڈاکٹر سیدہ ملیحہ بیگم