سمجھ میں نہیں آتا ہے کورونا وائرس بیماری ہے یا قہر الٰہی ہے یا کوئی عالمی سازش ہے؟ آج پوری دنیا کے حالات جہاں انسانوں کے لیے تو وہیں باالخصوص مسلمانوں کے لیے سبق آموز ہیں ، درس عبرت ہیں چین سے اٹھنے والی یہ بیماری دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی پوری دنیا کے لوگ اس بیماری سے خوفزدہ ہیں اس سے بچنے کیلیے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں یہاں تک کہ کثیر تعداد میں لوگ زیارت حرمین شریفین سے محروم ہوگئے۔ مسلمانوں کو اب تو احساس ہوجانا چاہیے اور ہمیں اپنا اجتماعی و انفرادی محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیگر اقوام کی طرح امت محمدیہ کو عذاب کے ذریعے نہ مٹانے کا اپنے حبیب سے وعدہ کیا ہے تو عذاب کے جھٹکوں کی وارننگ بھی دی ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا اسکول و کالج، مدارس و مساجد سے ہی کورونا کے بڑھنے کا خطرہ ہے کہ ان مقامات پر پابندی عائد کی گئی ہے دوسری جانب سعودی عرب کے حکمراں کے ذریعے عمرہ پر پابندی، حج پر پابندی بس حج کی رسم ادا کی گئی ہے جبکہ کورونا کے ماحول میں سعودی عرب کے اندر سنیما حال کھولے گئے، عورتوں کو ڈرائیورنگ لائسنس جاری کیا گیا، عورتوں کے لیے تفریح گاہ بنوائی گئی کیا اس سے کورونا کے بڑھنے کا خطرہ نہیں ہے؟۔ ایک مسلمان کے لیے حرمین شریفین کا دروازہ بند ہونا صرف احتیاطی اقدامات نہ سمجھا جائے بلکہ یہ کسی سازش سے کم نہیں کیونکہ عرب حکمرانوں کی جان پنجہ یہود میں ہے یہ دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ انہیں اب احساس ہی نہیں ہے کہ جہاں سے ساری مصیبت ٹل سکتی ہے وہاں پر ہم نے پابندی لگا رکھی ہے جبکہ یہ عقیدہ اور ایمان ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان کو جب حرمین شریفین میں پناہ نہیں مل سکتی تو اسے دنیا میں کہیں پناہ نہیں مل سکتی ۔انسانوں کے جو بھی مسائل ہوں چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ایک طرف مذہب اسلام نے اس کا سب سے بہتر حل پیش کیا ہے تو دوسری طرف حل تلاش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دل ودماغ عطا کیا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو رب کے قرآن اور نبی کے فرمان پر عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسلام کی تعلیمات نے لوگوں کو رب کی بندگی کرنے اور انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ و رسول کی غلامی کا احسن طریقہ بتایا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا دونوں جہاں میں سرخروئی و کامیابی کی ضمانت ہے اور جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہیں۔ آج دنیا کی حرص اور ایک دوسرے پر دنیاوی سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اطیعو اللہ و اطیعو الرسول سے بہت دور ہوچکے ہیں اور دنیا کی کامیابی کو ہم نے اصل کامیابی سمجھ لیا ہے۔ جبکہ دین کی خدمت کو چھوڑ کر، اسلام کی تعلیمات سے دور رہ کر ہم کبھی کامیاب ہوہی نہیں سکتے یہ بات ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہمیں دعوت و تبلیغ اور قرآن و حدیث کے مطابق عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ سیرت رسول اکرم، عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلیے مشعل راہ تھی، مشعل راہ ہے اور مشعل راہ رہے گی۔
راہ نجات تھی، راہ نجات ہے اور راہ نجات رہے گی۔ آج ہمارے اوپر پوری دنیا میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ اگر مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو ذلت و رسوائی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا کی ہر قومیں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور مذہب اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے پر تلی ہوئی ہیں اور ہم ہیں کہ رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے دور ہوکر قوم اغیار کا تعاون کررہے ہیں اور اپنی تاریخ کو بھلا کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معجزات کا انتظار کر رہے ہیں۔ آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وہ زمانہ آئے گا کہ جب دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی تو صحابہ کرام نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہۖ کیا اس وقت ہماری تعداد بہت کم ہوگی تو رسول کائناتۖ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تعداد تو سمندر کے جھاگ کے مانند ہوگی۔ لیکن ان کا ایمان بہت کمزور ہوگا۔
اللہ و رسول سے رشتہ بہت کمزور ہوگا اب اگر آج کے حالات پر غور کیا جائے اور اپنا محاسبہ کیا جائے تو ساری تصویر صاف ہوجاتی ہے ۔۔کروناوائرس کے حوالے سے امریکہ میں 1995ء میں بننے والی فلم OUT BREAK بھی اسی کا عکاس ہے،فلم میں بھی دیکھایا گیا ہے کہ وائرس چین سے پھیلتا ہے اور اس کی وجہ جانور ہیں لیکن فلم کے اصل حقائق جب سامنے آتے ہیں تو وائرس لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے اور انجیکٹ کیا جاتا ہے ۔ بائیو لوجیکل ہتھیار بنانے والے ممالک میں اسرائیل، امریکہ،روس،فرانس،جرمنی اور چائنہ سر فہرست ہیں،امریکہ اور اسرائیل کے بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال سعودی عرب یمن میں آزادانہ طور پر کرچکا ہے اور اس کی نشاندہی اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی کرچکی ہے،پھرا مریکہ نے شام میں ان ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔1945ء میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد اب تقریبا پھر نصف صدی سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے اور اس وقت عالم انسانیت تیسری عالمی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
اب عالمی صہیونی دجالیت کو کیا منظور ہے؟ پہلی سے دوسری عالمی جنگ کے دوران جو معاملات طے کئے گئے تھے دوسری عالمی جنگ کے بعد انہیں عملی جامہ پہنانا مقصود تھا۔ اس پہلے مرحلے کی باقاعدہ ابتدا نائن الیون کے ڈرامے سے کی گئی تھی۔ ان پہلے مرحلے میں ان مسلم ملکوں کے ہاتھ پیر توڑنا مقصود تھا جس آئندہ آنے والے دجالی صہیونی منصوبوں کے سامنے ممکنہ رکاوٹ بن سکتے تھے۔ وہ منصوبے جن میں اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کا اعلان کیا جانا مقصود ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے افغانستان کو نشانہ بناکر وہاں ٹھکانا بنایا گیا تاکہ یہاں سے روس، چین اور پاکستان کے ساتھ جغرافیائی قربت رکھتے ہوئے کسی بھی بڑے آپریشن کا آغاز کیا جاسکے، اس کے بعد عراق نمبر آیا اور پھر یمن سے لیکر شام تک آگ بھڑکا دی گئی۔