شہنشاہ بحرو بر حضرت عبدالطیف کاظمی مشہدی المعروف امام بری شہنشاہ میرے مرشد سرکار کے حجرہ مبارک میں روح پرور ایمان افروزحاضری کے بعد اپنی روح باطن کے عمیق ترین بعید ترین گوشوں کو عطر بیز مشکبو کستوری امبر زعفران کی حیات آفریں کیف آفریں خوشبوئوں سے مہکا کر باطن کی کثافتوں کو لطافتوں میںبدل کر بھرپور سیرابی سرشاری کے بعد میں حجرہ مبارک کے باہر آکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹکٹکی باندھے شہنشاہ بحر بر کی قبر مبارک کو دیکھ رہا تھا۔کرونا کی پابندیوں کے بعد کئی ماہ بعد میری پیا سی آنکھیں اور روح مرشد کے قدموں میں لپٹ کر باطنی انبساط کے ساتویں آسمان پر تھے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پرندہ آگ برساتے سورج کے نیچے سینکڑوں میل کا سفر کر کے جلتے سلگتے ریگستان کی گرم چھاننے کے بعد سرسبز و شاداب نخلستان میں آگیا جلتے بھسم ہوتے جسم کو ٹھنڈے پانی کا میٹھا چشمہ مل گیا ہو ابھی چند لمحے پہلے جب میں نے شہنشاہ کی چادر مبارک اور چوکھٹ کو چو ما تھا تو یہی لگا تھا میں صدیوں کی پیاس بجھ گئی ہے میرے جسم کا پیاسا رواں رواں ٹھنڈے پانی سے سیراب ہو گیا ہو کو چہ تصوف کے ہر مرید کو اپنے مرشد سے والہانہ اندھا عشق ہو تا ہے میں بھی ایسے ہی جذبے عقیدت سے سرشار دامن کوہ کے اِس شہنشاہ کے در پر غلام بن کر آیا تھا۔
راہ حق کے سالکوں کی طرح مجھے بھی اپنے مرشد سے دیوانہ وار عشق ہے جب بھی دنیاوی ہنگاموں اور مادیت پرستی کے شب و روز سے میری روح بوجھل اداس ہو جاتی ہے ویرانی اور بنجر پن سے روح سلگنے لگتی ہے تو میں دامن کوہ کے اِس شہنشاہ لج پال کی ٹھنڈی روح پرور آغوش میںآکر پناہ لیتا ہوں یہ مرد کامل صدیوں سے میری طرح معرفت کے طلب گاروں کو اپنے بے پناہ فیض سے اِسی طرح نواز رہا ہے میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو کسی کونے میں بیٹھ کر گھنٹوں ٹکٹکی باندھے قبر مبارک کی زیارت کرتا ہوں کبھی سرشاری مستی میںاٹھ کر اِدھر اُدھر چلنا شروع کر دیتا ہو یا مزار شریف کے اطراف میں پھیلے خالی میدان میں چلنا شروع کر دیتا ہوں یا سبز گنبد کی پر شکوہ عمارت کو مختلف زایوں سے جی بھر کر دیکھتا ہو یا جیسے کوئی ماں سے بچھڑا ہوا بچہ طویل عرصے بعد اپنی ماں کی آغوش میں آکر پناہ لیتا ہے۔
مدہوشی سرشاری خوشی مستی کیف آفریں روح پرور آسودگی میرے رگ و پے کو حلاوت انگیز سرشاری آسودگی سے ہمکنار کر تی ہے گنبد پر نظر پڑتی ہے تو بے قرار پیاسے دل میں خیال کو شگوفہ پھوٹتا ہے کہ پرندہ بن کر بادل کا ٹکڑا بن کر ساری زندگی مرشد کے مزار مبارک گنبد کا طواف کروں مزار کے درودیوار کے بوسے لوں ۔پھر خیا ل کی کلی کھل اٹھتی ہے کہ ریت بن کر اِدھر اُدھر بکھر جائوں پھر یہیں پڑا رہوں گلاب کی پتیاں بن کر راستوں پر بکھر جائوں اور شہنشاہ کے آنے والے دیوانوں کے قدموں کے بوسے لوں کہ وہ میرے لج پال کے مہمان اور دیوانے ہیں یہاں پر جھاڑی بن جائوں درخت بن جائوں سرکار کے درخت مبارک پر دھاگا بن کر بندھ جائوں چراغ بن کر روزانہ رات کو روشنی بکھیرو ں اگر بتی بن کر فضا کو خوشبو سے مہکا دوں بادِ نسیم کا جھونکا بن کر روزانہ گنبد مبارک کے بوسے لوں ۔شہنشاہ کے مزار اقدس اور قرب و جوار میں زندگی روحانیت معرفت کے رنگ چاروں طرف نظر آتے ہیں بلا شبہ یہ میری پسندیدہ ترین جگہ ہے جہاں پہنچ کر میں دنیا مافیا سے بے خبر ہو جاتا ہوں میںاور میری روح حالت مدہوشی میں رقص کر تی ہے دھمال ڈالتی ہے جھومنے کو دل کرتا ہے واپسی کے خیال کے ساتھ ہی ہجر کی تپش اور اداسی سے روح بوجھل مغموم ہو جاتی ہے زندگی خوشی نشہ مستی سرشاری سب کچھ یہیں پر تو ہے زندگی یہاں پر ہے یہاں سے دوری تو موت ہے جب میں شہنشاہ کی غلامی میں نہیں آیا تھا تو جب سنتا یا پڑھتا تھا کہ کس طرح حضرت امیر خسرو بلھے شاہ مولانا روم بابا فرید پیر مہر علی شاہ شاہ سلیمان تونسوی قطب الدین تاریخ تصوف کا ہر طالب مرید اپنے مرشد سے دیوانہ وار عشق کرتا تھا تو مجھے حیرت ہو تی تھی کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مرید اپنے مرشد کے لیے اپنی زندگی ساری دولت آرام سکھ چین مرشد کے اشارے پر قربانی کرنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔
بلھے شاہ مرشد کو منانے کے لیے پائوں میں گھنگروباندھ کر ناچ کر مناتا ہے امیرخسرو مرشد کے جوتوں کو پانچ لاکھ اشرفیوں میں خرید لیتا ہے پیر مہر علی گلے میں کپڑا ڈال کر ہزاروں جانور اناج لے کر سیال شریف حاضر ہو کر کہتا ہے کہ سید زادہ حاضر ہے غلام کی غلامی کو قبول فرمائیں کس طرح نوجوان بابافرید کو جب خواجہ قطب اپنے مرشد تاریخ انسانی کی عظیم ترین بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے ساتھ آکر کہتے ہیں اٹھ فرید اپنے دادا مرشد کو سلام کرو تو کڑے مجاہدوں کے بعد کمزور جوان فرید لڑ کھڑاتے اٹھ کر دادا مرشد کی بجائے اپنے مرشد خواجہ قطب کے پائوں سے لپٹ جاتے ہیں تو خواجہ قطب پھر کہتے ہیں فرید مجھے نہیں اپنے دادا مرشد کو سلام کرو تو بابافرید پھر اٹھ کر اپنے مرشد خواجہ قطب کے پائوں سے لپٹ جاتے ہیں تو خواجہ قطب بابا فرید سے پھر فرماتے ہیں تمہارے پاس سلسلہ چشتیہ کے بانی سلطان الہند خواجہ معین الدین میرے مرشد تشریف لائے ہیں اٹھو اُن کو سلام کرو تو بابافرید کمزوری سے اٹھ کر پھر خواجہ قطب کے پائوں سے دوبارہ لپٹ کر رونا شروع کر دیتے ہیں تو شہنشاہ اجمیر عطائے رسول نائب رسول خواجہ خواجگان دلنواز تبسم سے فرماتے ہیں بس کرو قطب تمہارے فرید کو تمہارے علاوہ اپنے مرشد کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا کہ مرشد کے عشق میں فنا ہو چکا ہے آپ کوچہ تصوف کا مطالعہ کریں تو عجیب حیران حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ ہر مرید طالب حق کو دنیا میں اپنے مرشد سے بڑھ کر کچھ نظر نہیں آتا وہ دن رات اپنے مرشد کا ہی طواف کرتا نظر آتا ہے۔
اِسی طرح میں بھی پاکستان ہندوستان کے مشہور زندہ جاوید اولیاء کرام کے مزارپر انوار سے ہو کر سلام پیش کر کے آیا ہوں لیکن کیا کروں یہ سچ ہے کہ جو سکون نشہ سرشاری ہمیشہ مجھے شہنشاہ کوہسار بحر و بر امام بری مرشد کے مزار پر آتی ہے وہ کہیں اور نہیں یہ حالت میری ہی نہیں ہر طالب اور مرید کو اپنا مرشد سارے جہاں سے پیارا لگتا ہے جس کے ابروئے چشم پر وہ ہر لمحہ نثار ہو نے کو بے قرار اور سعادت سمجھتا ہے آج بھی میں دنیا جہاں کی نعمتیں اپنے تہی دامن میں سمیٹ رہا تھا اور رشک کر رہا تھا کہ شہنشاہ کوہسار مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں 1026ء میں شہر جہلم کے موضع کر سال میں پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا نام سید سخی محمود شاہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام مو سی کاظم سے ملتا ہے۔
آپ پیدائشی ولی تھے جس کے اشارے بچپن میں ہی نظر آنے شروع ہو گئے پھر اشارہ غیبی کے تحت آپ کے والد صاحب آپ کے بچپن میںہی کرسال جہلم کو چھوڑ کر موضع ” باغ کلاں ” موجودہ آب پار ہ اسلام آباد میں منتقل ہو گئے جوانی تک بے شمار کتابیں علوم پڑھ چکے تھے لیکن من کی پیاس بے قراری جا ری تھی بے قراری کے اُسی دور میں آپ کی ملاقات سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حیات المیر سے ہوئی تو آپ نے اپنی باطنی پیاس بے قراری کا ذکر کیا تو انہوں نے خدا کے ذکر میں سکون بتایا تو امام بری صاحب نے حیات المیر صاحب سے درخواست کی کہ مُجھ بے قرار کو ذکر کا طریقہ بتا ئیے اوراپنی غلامی میں لے کر مرید کر لیں حضرت حیات المیر حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے پھر حضرت امام بری نے اپنے مرشد کی نگرانی میںلوہے دندی پہاڑ کے اوپر پھر ہزارہ کے دامن میں نیلا بھوتو میں طویل ریاضت کی جب مجاہدے کی بھٹی سے کندن ہو کر نکلے تو مرشد کے حکم پر پھر باغ کلاں جس کو چوروں کی آما جگاہ کی وجہ سے چور پور کہا جاتا تھا لیکن مرد درویش کے مبارک قدموں سے چور پور پھر نور پور بن گیا آپ نے اِس علاقے کے بارے میں پیشن گوئی کی کہ ایک دن یہ اسلام کے نام سے شہر بنے گا پھر 1971ء میں چور پور اسلام آباد بن کر دنیاکے نقشے پر ابھرا چوروں کی دھرتی سے شہنشاہ کوہسار کا معرفت کا ایسا آبشار ابلا جو قیامت تک طالبین کی پیاس کو اسی طرح بجھاتا رہے گا ۔آپ کی ریاضت کے بعد آپ کے مرشد نے فرمایا مبارک ہو آج سے تم امام بر ہو جو بعد میں امام بری بن گیا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org