چھتیس (اصل میڈیا ڈیسک) گڑھ بھارت کے ماؤنواز نکسل بھی کہلاتے ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں سے حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہیں بھارتی داخلی سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
بھارتی سکیورٹی فورسز نے رواں برس سے بائیں بازو کے گوریلا جنگجوؤں کے خلاف مسلح آپریشنز میں شدت پیدا کر رکھی ہے۔ یہ جنگجو گوریلے معدنیات کے ذخائر سے مالا مال وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ ان باغیوں کی کئی مرتبہ ملکی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ماؤ نوازوں کا کہنا ہے کہ وہ غریب لوگوں کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چھتیس گڑھ کے ماؤ نواز نکسل باڑی بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی مسلح تحریک کو بھارت کی داخلی سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔
ان کے مسلح گوریلا آپریشن ایک طرف ملک کے مشرق میں ہیں اور دوسری جانب جنوبی علاقوں تک بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سارے علاقے کو سرخ راستہ یا ریڈ کوریڈور کہا جاتا تھا۔ ان باغیوں کی مسلح کارروائیوں اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے جوابی آپریشنز کی وجہ سے اس ریڈ کوریڈور کا حجم سکڑتا جا رہا ہے۔
چھتیس گڑھ میں ماؤنواز باغیوں کی مسلح کارروائیوں کا آغاز سن 1960 میں ہوا تھا۔ ان کے مسلح حملوں اور جوابی کارروائیوں میں دس ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ بھارت کی وفاقی حکومتیں ماؤ نواز باغیوں کے خطرے سے جہاں سکیورٹی فورسز کی مدد سے نمٹ رہی ہیں، وہاں مقامی افراد کی مالی ترقی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور نریندر مودی حکومت بھی اسی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے۔
بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں صنعتی اور اقتصادی ترقی کی رفتار خاصی بڑھ چکی ہے اور اس میں مختلف اٹھائیس قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں ہیرے اور سونا بھی شامل ہیں۔ اسی ریاست میں بھارت کے سولہ فیصد کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ لوہا اور باکسائیٹ جیسی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔ اس ریاست میں ماؤ نواز باغیوں کی مسلح کارروائیوں کی وجہ سے بھارتی اقتصادی ترقی کی رفتار گراوٹ کا شکار ہے۔
اسی ریاست کی پولیس نے اپنی کوششوں سے ماؤ باغیوں کے مرکزی علاقوں کا سروے مکمل کر کے نقشہ بھی تیار کر لیا ہے۔ اس نقشے کی روشنی میں تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ سروے رواں برس جنوری میں شائع کیا گیا تھا۔ اس میں ماؤ باغیوں کی تصاویر بھی شامل ہیں اور گاؤں کی سطح پر ان کی سرگرمیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس نقشے کے مطابق اب تک پولیس اور سکیورٹی فورسز نے پندرہ دیہات کو مسلح کارروائیوں سے صاف کر دیا ہے اور یہ نقشے کی مدد سے ہی کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سروے کے لیے دانتے واڑا ضلع کو منتخب کیا گیا تھا اور اس میں کل ایک سو انچاس دیہات ہیں، جن میں ماؤ نواز باغیوں کی رسائی رہتی ہے۔
یہ بھی ایک اہم امر ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں چھتیس گڑھ کے ماؤ نواز باغیوں کی مسلح قوت میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں جنگجو گوریلوں نے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حملے بھی کیے ہیں۔
اس سروے کا خیال دانتے واڑا کے نگران پولیس افسر ابھیشیک پالاوا کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اس سروے کی وجہ سے اب پولیس کو گوریلوں کے بارے میں انتہائی اہم معلومات میسر ہوئی ہیں۔
پالاوا کا کہنا ہے کہ اس سروے کا اولین مقصد اس ضلع یعنی دانتے واڑا کی داخلی صورت حال کو سمجھنا ہے اور پھر حالات کی روشنی میں ترقیاتی امور کو شروع کرنا بھی شامل ہے۔
ابھیشیک پالاوا کا کہنا ہے کہ سروے کی روشنی میں پولیس کی نقل و حمل اور نفری کی تعیناتی میں آسانی ہو گی اور ضلعی تحفظ میں بھی یہ سروے مددگار ثابت ہو گا۔