امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) حالیہ ہفتوں کے دوران ملک کے زیادہ تر حصوں میں افغان فورسز نے بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ان میں سے زیادہ تر امریکی ہتھیار تھے جو افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے فراہم کیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحہ ان کے ہاتھ لگنے سے ان عسکریت پسندوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔
امریکا نے حالیہ برسوں کے دوران طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کو جدید ترین اسلحے کی فراہمی اور تربیت پر کئی بلین ڈالرز خرچ کیے۔ افغانستان کے زیادہ تر حصوں میں حکومتی فورسز کی طرف سے لڑے بغیر طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سبب یہ امریکی ہتھیار اور اسلحہ اب طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغان سکیورٹی فورسز کے ہزارہا اہلکاروں نے طالبان کے آگے ہتھار ڈالے۔
طالبان کے آن لائن نیٹ ورکس پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہے جن میں طالبان جنگجوؤں کو امریکی اسلحے پر قبضے میں لیتے، قبضہ شدہ گاڑیوں پر گشت کرتے یا پھر ملٹری ہیلی کاپٹرز کے ساتھ پوز بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک کے شمالی شہر قندوز سے تعلق رکھنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے قبضے میں ایسی مسلح فوجی گاڑیاں ہیں جن پر بھارتی ہتھیار اور دیگر ملٹری آلات نصب ہیں۔ مغربی شہر فراح میں تو طالبان جنگجوؤں کو ایسی گاڑیاں چلاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جن پر افغان سیکرٹ سروس کا لوگو لگا ہوا ہے۔
برطانوی تنظیم ‘کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ‘ سے تعلق رکھنے والے مسلح تنازعات کے ماہر جسٹن فلائشنر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی فوج اپنے ‘انتہائی جدید‘ آلات افغانستان سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ تاہم ایسی گاڑیاں، اسلحہ اور ہتھیار جو افغان سکیورٹی فورسز کے لیے چھوڑے گئے تھے وہ طالبان جنگجوؤں کے ہاتھ لگے۔
یہ بات اب درست ہے کہ طالبان اب ناکارہ یا کمزور اسلحے کے حامل ایک طاقت نہیں رہے۔ اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ طالبان کو پاکستان سمیت کئی اطراف سے مدد ملتی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحہ ان کے ہاتھ لگنے سے ان عسکریت پسندوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔
سنگاپور کے تھنک ٹینک ایس راجاراتھنم اسکول آف انٹرنینشل اسٹڈیز سے منسلک رافائلو پینتوسی کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ قبضے میں لیے گئے ہتھیار دارالحکومت کابل پر حملے کے لیے استعمال ہوں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جدید آلات اور ہتھیار طالبان کی طاقت میں اضافہ کریں گے اور یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے۔
قبضے میں لیے گئے ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ طالبان جنگجوؤں کی ویڈیوز قندوز ایئرپورٹ پر طالبان کے قبضے کے موقع کی ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سابق اہلکار اور کاؤنٹر ٹیررزم کے ایک ماہر ایکی پیرٹز تاہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کامیابیوں سے براہ راست لڑائی میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ طالبان کے پاس پائلٹ نہیں ہیں: ”ان کو صرف پراپیگنڈا کے مقصد سے استعمال کیا جائے گا۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے چند ہفتے قبل ہی کہا تھا، ”ہم نے اپنے افغان پارٹنرز کے لیے تمام تر ذرائع بہم پہنچا دیے ہیں۔ میں زور دے کر کہوں گا تمام تر ذرائع۔‘‘ امریکی صدر افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور طالبان کے خلاف جنگ افغانوں کے حوالے کرنے کے فیصلے کا دفاع کر رہے تھے۔
ایک سابق امریکی فوجی اہلکار جیسن امیرین کے مطابق واشنگٹن یہ بات بہت پہلے سے مدنظر رکھے ہوئے ہے کہ طالبان امریکی اسلحہ چُرا سکتے ہیں۔ پینٹاگون افغان مسلح افواج کے لیے اسلحے کی خریداری کے لیے اس بات کو ہمیشہ سے مدنظر رکھتا آیا ہے۔
امیرین کے بقول طالبان کی طرف سے حالیہ دنوں میں دیکھی جانے والی تیز رفتار پیش قدمی ‘بدترین صورتحال‘ ہے۔ امیرین 2001ء میں افغانستان میں امریکی حملے کے وقت ایک اسپیشل یونٹ کے سربراہ رہے تھے۔
افغانستان میں پیش آنے والی صورتحال امریکا کے لیے کوئی نئی چیز بھی نہیں ہے۔ سال 2014ء کے وسط میں جب امریکی فوجی عراقی شہر موصل سے نکل گئے تھے تو داعش کے حوالے سے ایسی ہی صورتحال پیش آئی تھی۔
امریکی فوج کے لیے خریدے گئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نئے مالکان مل گئے تھے۔ اس سے نا صرف ان کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا بلکہ داعش نے آن لائن نیٹ ورکس پر اس کا خوب چرچا بھی کیا تھا۔ داعش نے وہیں سے اپنی خود ساختہ خلافت قائم کی تھی۔