کابل (اصل میڈیا ڈیسک) ترک وزیر خارجہ کے مطابق وہ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ترک حکومت اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان کے بیانات کو مثبت انداز میں دیکھ رہی ہے۔ ترکی نے کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا ہے کہ وہ اس وقت طالبان سمیت افغانستان کے تمام فریقین سے رابطے میں ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ترک سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی نے کابل ایئرپورٹ کا نظام سنبھالنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا ہے اور ایسا نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے مدد طلب کی تو ترک فورسز انہیں تکنیکی اور سکیورٹی میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد کا وہ واحد ملک ہے، جو مسلم ہے اور نیٹو میں اس کے فوجیوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔
ترک وزیر خارجہ کا اردن میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا، ”ابھی تک طالبان کے جو بیان سامنے آئے ہیں، ہم انہیں مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ چاہے یہ بیانات غیر ملکیوں کے حوالے سے ہوں یا پھر سفارتی اور مقامی لوگوں کے بارے میں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان بیانات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔‘‘
افغانستان میں ابھی تک تقریباﹰ 600 ترک فوجی موجود ہیں۔ ترک وزیر خارجہ کے مطابق وہ افغانستان میں ایئرپورٹ سکیورٹی کے حوالے سے امریکا سے بھی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک اعلٰی ترک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان کے ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات جاری تھے اور طالبان کی درخواست کے بعد ترک فوجی کابل ایئرپورٹ کا نظام سنبھالنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس ترک عہدیدار کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ”ہمیں شک ہے کہ ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے طالبان کے پاس کافی افرادی قوت موجود ہے۔ طالبان شاید تکنیکی مدد کی درخواست کریں۔ ایئرپورٹ پر موجود ترک فوجی اپنے فریم ورک کے مطابق وہاں اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ماضی میں طالبان نے افغانستان میں ترک فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے خبردار کیا تھا لیکن ترک حکام کے مطابق طالبان نے ترک فوجیوں کو ملک چھوڑنے کا نہیں کہا۔ ترک حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں مسلمان ملکوں کے مابین اس طرح اچھے تعلقات کا آغاز ہو سکے گا اور انقرہ حکومت مستقبل میں طالبان کو بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکے گی۔
اسی طرح ایک دوسرے ترک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ترک حکام پاکستان کے ذریعے ”طالبان کے عسکری نمائندوں سے رابطے میں تھے‘‘ جبکہ قطر میں طالبان کے سیاسی ونگ سے بھی ان کے رابطے برقرار تھے۔