بیجنگ (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں امریکی منصوبوں کے ڈرامائی خاتمے کے بعد بیجنگ حکومت نے پیچھے بچی راکھ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا اشارہ دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی چین کابل میں ’طالبان کے شو‘ پر محتاط انداز میں نظر رکھے ہوئے ہے۔
چین اپنی مشرقی سرحد پر واقع صوبے سنکیانگ پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہے، جہاں ایغور مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ چند روز قبل، ابھی طالبان نے کابل پر برق رفتار قبضہ کرتے ہوئے دنیا کو حیران کیا تھا- چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے طالبان کے وفد کا بذات خود استقبال کیا تھا۔ کابل میں داخل ہونے کے ایک روز بعد ہی چین کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ ‘دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کو مضبوط‘ بنانے کے لیے تیار ہے۔
بیجنگ حکومت کے مطابق وہ کابل میں کسی سیاسی تصفیے پر اثرانداز ہونے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد چین اپنے ‘بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ‘ کو افغانستان میں وسعت دینے کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔
بیجنگ کے سیاسی تجزیہ کار ہوا پُو کے مطابق چین نے طالبان کے سامنے چند بنیادی مطالبات رکھے تھے، ”پہلا مطالبہ یہ تھا کہ چینی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ سینکیانگ کے علیحدگی پسندوں سے روابط توڑے جائیں گے اور انہیں واپس سینکیانگ آنے کی اجازت فراہم نہیں کی جائے گی۔‘‘
طالبان چین کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ بیجنگ حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
چینی میڈیا کے مطابق افغانستان میں حکومت کی تبدیلی نے سرمایہ کاری کے مواقع کو بڑھا دیا ہے۔ یہ مواقع دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ‘عینک کاپر مائن پروجیکٹ‘ سے شمال میں فریاب اور سرپُل کے تیل کے ذخائر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ غیریقنی صورتحال کے باوجود بیجنگ کی حمایت یافتہ کمپنیاں پہلے ہی کان کنی اور تعمیر کے شعبوں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔
دوسری جانب افغانستان میں لیتھیم کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو ‘سعودی عربیہ آف لیتھیم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیتھیم الیکٹرک کاروں کی تیاری کے لیے بنیادی دھات ہے اور دنیا بھر میں اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چین اس وقت دنیا میں الیکڑک گاڑیاں تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
پیر کے روز چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چیوننگ کا کہنا تھا، ”طالبان افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی میں بیجنگ حکومت کا کردار چاہتے ہیں اور ہم نے انہیں خوش آمدید کہا ہے۔‘‘ خراب سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے چین نے کئی ماہ پہلے ہی اپنی شہریوں کو نکالنا شروع کر دیا تھا لیکن اس ملک نے کابل میں اپنا سفارت خانہ ابھی تک کھلا رکھا ہے۔
ماضی کو دیکھا جائے تو طالبان کے فیصلے غیرمتوقع ہوتے ہیں، ان کے بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ سینگاپور میں ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینئر فیلو رافائیلو پینٹوسی کہتے ہیں، ”چین کو تاریخ کا علم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ طالبان کی حکومت پر مکمل طور پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ رافائیلو پینٹوسی کے مطابق چینی کمپنیاں فوری طور پر افغانستان کی طرف بھاگنا شروع نہیں ہو جائیں گی بلکہ وہ زمینی حالات کا جائزہ لے کر ہی وہاں قدم جمائیں گی۔
لیکن فی الحال چین امریکا کی افغانستان میں ناکامی اور اس کے حوالے سے ہونے والے پروپیگنڈا سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے کابل ائیرپورٹ کی تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اُس بدامنی کی مظہر ہیں، جو امریکا اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ امریکا کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے افغان صدارتی محل میں بیٹھے طالبان کی تصویر شائع کی گئی اور لکھا گیا کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی امریکی صدارتی منتقلی سے زیادہ پرامن تھی۔
منگل کے روز چینی حکومت کی ترجمان ہوا کا کہنا تھا، ”واشنگٹن نے بدامنی، تقسیم اور ٹوٹے ہوئے خاندانوں کا ایک خوفناک ورثہ پیچھے چھوڑا ہے۔ امریکا کی طاقت اور کردار تباہی ہے، تعمیر نہیں۔‘‘ اسی طرح چین نے اپنے حریف تائیوان کو خبردار کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ دیکھو امریکا افغانستان کو کس حال میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی فوجیوں کے انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور روس تو یہی چاہتے ہیں کہ امریکا اپنے ملک کے وسائل کو افغانستان کی دلدل میں جھونکتا رہے۔
لیکن بیجنگ کے سیاسی تجزیہ کار ہوا پُو کا کہنا ہے کہ جونہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا وقت ختم ہو گا، چین طالبان اور افغانستان کے حوالے سے حقیقت پسندانہ اور عملی پالیسی اپنائے گا۔