طالبان مطلوبہ افراد کی گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں، اقوام متحدہ

Taliban

Taliban

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ طالبان نے نیٹو فورسز یا سابقہ افغان حکومت کے لیے کام کرنے والے افراد کی تلاش تیز کر دی ہے۔ حالانکہ پہلے طالبان نے سب کو معاف کرنے اور انتقام نہ لینے کی بات کہی تھی۔

خطرات کے اندازے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جو افراد امریکا یا نیٹو کے لیے کام کرتے تھے، طالبان نے ان کی تلاشی مہم تیز کر دی ہے اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایسے افراد کو گھر گھر جا کر تلاش کیا جا رہا ہے اور نہ ملنے پر ان کے اہل خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن اب وقت کے ساتھ اس بات کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ شاید طالبان میں پہلے کے مقابلے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اقوام متحدہ کو انٹیلیجنس سروس مہیا کرنے والے ناروے کے ایک ادارے ‘سینٹر فار گلوبل انالسس‘ کی تیارکردہ ایک خفیہ رپورٹ میڈیا اداروں کے ہاتھ لگی ہے جس میں ادارے نے بیرونی حکومت کے مددگاروں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔

اس خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی نظر میں جو مطلوبہ افراد ہیں اور جنہیں وہ گرفتار کر کے سزائیں دینا چاہتے ہیں اس سے متعلق ان کے پاس ایک ترجیحی لسٹ موجود ہے۔ وہ ایسے افراد کو گھر گھر جا کر تلاش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے آپ کو حوالے نہیں کیا تو پھر ان کے بدلے ان کے اہل خانہ کو گرفتار یا قتل کر دیا جائے گا۔

جو افغان کابل یا پھر جلال آباد کے ایئر پورٹ کی جانب جا رہے ہوتے ہیں، ان کی بھی کافی تلاشی لی جا رہی کہ کہیں ان کے مطوبہ افراد فرار ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں۔

ناروے کی جس تنظیم نے یہ رپورٹ تیار کی ہے اس کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کرسٹیئن نیلیمین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”وہ ان لوگوں کے خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنے آپ کو حوالے کرنے سے انکار کرتے ہیں، اور ان کے اہل خانہ پر شرعی قوانین کے مطابق مقدمہ چلا رہے ہیں اور انہیں سزائیں دے رہے ہیں۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہمیں توقع ہے کہ دونوں طرح کے لوگوں کے ساتھ، جو پہلے نیٹو/امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ کام کر رہے تھے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تشدد کیا جائے گا اور وہ سزائے موت کا بھی سامنا کریں گے۔”

کرسٹیئن نیلیمین کے مطابق، ”اس سے مغربی ممالک کی انٹیلیجنس سروسز، ان کے نیٹ ورکس، طریقہ کار اور طالبان، داعش اور دیگر دہشت گردانہ خطرات کا مقابلہ کرنے کی مغرب کی صلاحیت مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔”

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان کے خلاف جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ اب کئی دیگر شہروں تک پھیل چکے ہیں۔ جمعرات کو کابل میں مظاہرین نے قومی پرچم لہرایا تاہم اسد آباد کے علاقے میں بعض مظاہرین کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغان یوم آزادی منانے کے لیے اپنے قومی پرچم کے ساتھ باہر نکلے تھے جسے روکنے کے لیے طالبان نے فائرنگ کی جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور دو افراد ہلاک ہو گئے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہلاکتیں گولی لگنے سے ہوئیں یا پھر بھگدڑ مچنے سے ہوئیں۔

جلال آباد میں بھی طالبان نے ان افراد پر فائرنگ کی جو قومی پرچم کے ساتھ یوم آزادی کا جشن منانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس فائرنگ میں ایک نوجوان لڑکا اور ایک دیگر شخص زخمی ہو گئے۔

جی سیون ممالک نے ایک بار پھر سے طالبان پر اس بات کے لیے زور دیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو جو افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے اسے نکلنے کا

محفوظ راستہ فراہم کریں۔ اس دوران امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

نیٹو کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ جب سے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے اس وقت سے اٹھارہ ہزار افراد کا کابل ایئر پورٹ سے انخلا کیا جا چکا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ افغان چھوڑنے کے متمنی افراد کے کابل ایئر پورٹ پر پہنچنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور جو بھیڑ جمع ہونی شروع ہوئی وہ ابھی کم نہیں ہوئی ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ایک ساتھی سیاست دان ارمن لیشیٹ نے طالبان کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے ایک مقامی جرمن اخبار سے بات چیت میں کہا، ”اچھی خارجہ پالیسی کا فن ایسی ریاستوں کے ساتھ کسی حل تک پہنچنے میں مضمر ہوتا ہے، جن کے اہداف اور انسانیت سے متعلق ان کی شبیہہ کو ہمارا معاشرہ بجا طور پر مسترد کر دیتا ہے۔”

آئندہ ماہ جرمن عام انتخابات کے بعد ارمن لیشیٹ میرکل کی جگہ لے سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان سے احترازکرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا اس لیے براہ راست بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے چین کے سرکاری میڈیا ادارے سے بات چیت میں کہا ہے کہ چین نے افغانستان میں امن اور مصالحت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ملک کی تعمیر نو کرنے کے لیے چین کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ”چین ایک بہت بڑا ملک ہے جس کی ایک بڑی معیشت ہے اور وہ صلاحیتوں سے بھر پور ہے۔ میرے خیال میں وہ افغانستان کی تعمیر نو، بحالی اور تجدید میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔”