کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کابل کا ہوائی اڈہ افراتفری کا ایک بھیانک منظر دکھا رہا ہے۔ ہفتے کے روز ہوائی اڈے کے قریب سات افراد ہلاک ہو گئے۔
برطانوی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے کے قریب سات افغان شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس وقت کابل کے ہوائی اڈے کے آس پاس ہزاروں افراد موجود ہیں، جو ملک سے فرار کے خواہش مند ہیں۔
گزشتہ اتوار کو کابل پر طالبان کے غیرمتوقع اور اچانک قبضے کے بعد سے غیرملکی اور افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے نکلنے کی کوششوں میں حامدکرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈےکے اردگرد موجود ہے۔
اتوار کے روز برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ”کابل میں (ہوائی اڈے پر) مجمعے میں شامل سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہاں حالات انتہائی پیچیدہ ہیں مگر ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کہ صورت حال سے تمام ممکنہ محفوظ طریقے سے نمٹیں۔‘‘
کابل ہوائی اڈے پر موجود سکائی نیوز کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد ہفتے کے روز ہوائی اڈے کی دیواروں کی جانب لپکے اور ان میں سے کئی بندشوں کے ساتھ کچلے گئے۔ دکھائے گئے مناظر میں فوجی ایک دیوار کے قریب سے زخمیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور دیگر افراد پر پانی چھڑکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پانی کے چھڑکاؤ کی وجہ یہ ہے کہ کہیں کئی روز سے یہاں موجود لوگ ڈی ہائیڈریشن کا شکار نہ ہو جائیں۔
کابل کے ہوائی اڈے پر بچوں کے لاپتا ہونے یا اپنے ماں باپ سے بچھڑ جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کابل سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کو ایک بچہ ایک خاردار باڑ میں پھنسا ملا، تاہم اس کے والدین کا اب تک سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ اس چھ سالہ بچے کے مطابق اسے اس کا والد ملک سے نکلنے کے لیے ایئرپورٹ لائے تھے، تاہم بھیڑ میں وہ ان سے الگ ہو گیا۔
مقامی صحافیوں کے مطابق کئی افراد ہوائی اڈے پر لاپتا ہو جانے والے بچوں کی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں۔
شہریوں کے انخلا کے لیے مزید وقت درکار افغانستان سے شہریوں کے انخلا کے عمل کے لیے 31 اگست کی ڈیڈلائن مقرر ہے تاہم اتوار کے روز برطانوی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر 31 اگست کے بعد بھی یہ آپریشن جاری رہ سکتا ہے۔
برطانوی وزیردفاع بین ویلیس نے دی میل اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ”شاید امریکی کو زیادہ دیر قیام کی اجازت مل جائے۔ ایسی صورت میں انہیں ہماری بھرپور مدد حاصل رہے گی۔‘‘
دوسری جانب امریکا نے 31 اگست تک اپنے تمام شہریوں کو افغانستان سے نکال لینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے جب کہ اس سلسلے میں کسی توسیع سے متعلق کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔ برطانوی اخبارات میں تاہم کہا گیا ہےکہ لندن حکومت واشنگٹن پر زور دے رہی ہے کہ وہ شہریوں کے انخلا کی حتمی تاریخ میں توسیع کی کوشش کرے۔
برطانوی وزیردفاع ویلیس نے اپنے مضمون میں لکھا ہے، ”میں متعدد مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اگر امریکا اس ٹائم ٹیبل پر جما رہتا ہے تو کوئی بھی ملک اپنے تمام شہریوں کو افغانستان سے نکال نہیں پائے گا۔‘‘
ویلیس نے کابل ائیرپورٹ پر حالات قابو میں رکھنے کے لیے فوج کے استعمال کو ایک بڑا چیلینج قرار دیا۔
کابل پر گزشتہ اتوار کو طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان باشندے طالبان کی حکومت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے کابل کے ہوائی اڈے کی جانب پہنچے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوتی ہے، تو ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ گو کہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے تمام شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم بہت سے افراد کے لیے خوف کی یہ فضا برقرار ہے۔
اتوار کے روز کابل سے پرواز کرنے والے متعدد صحافی اور دیگر افراد نے بتایا کہ طالبان جنگجوؤں کی ایک گاڑی ان کی بس سے آگے چل رہی تھی اور یہ جنگجو ہوائی فائرنگ کر کے بس کے گزرنے کے لیے جگہ بنا رہے تھے۔ ایک صحافی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”وہاں لوگ ہمیں اپنے پاسپورٹ دکھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے ہمیں ساتھ لے چلو‘‘
یہ بات اہم ہے کہ امریکا نے اس صورت حال میں انخلا کے عمل کو 31 اگست تک مکمل کرنے کے لیے ہزاروں فوجی افغانستان بھیجے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں قریب 15 ہزار امریکی شہری جب کہ 50 سے 60 ہزار افغان معاونین موجود ہیں، جنہیں نکالا جانا ہے۔
تاہم اس کے علاوہ بھی بے شمار افراد ہیں، جو طالبان کی حکومت کے خوف میں اس ملک سے فرار چاہتے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے انخلا کے اس عمل کو تاریخ کی سب سے مشکل اور سب سے بڑی فضائی ریسکیو کارروائی قرار دیا ہے۔