افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کا کہنا ہے کہ وہ مقررہ تاریخ تک انخلاء مکمل کرنے کے لیے پر عزم ہے، تاہم اس کے اتحادی اس میں توسیع پر زور دے رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اگر بیرونی فورسز کے انخلاء میں تاخیر ہوئی تو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن 24 اگست منگل کے روز ہی یہ اہم فیصلہ کرنے والے ہیں کہ افغانستان سے انخلاء کی جو 31 اگست کی مقررہ تاریخ ہے اس میں توسیع کی جائے یا نہیں۔ حالانکہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر امریکا کے اتحادی جرمنی اور فرانس جیسے بعض ممالک نے اس میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔
دریں اثنا امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اسے امید ہے کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلا ء مکمل کرنے کا ہدف پورا کر لیا جائے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ ابھی تک کی صورت حال سے ایسا نہیں لگتا کہ مقررہ تاریخ میں کسی تبدیلی کی کوئی ضرورت ہے۔
لیکن اطلاعات کے مطابق منگل کے روز افغانستان کی صورت حال پر جی سیون ممالک کی جو کانفرنس ہونے والی ہے اس میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس اس بات پر زور دیں گے کہ مغربی ممالک کے شہریوں، فورسز اور افغانیوں کے انخلاء کو محفوظ بنانے کے لیے 31 اگست کی مقررہ تاریخ میں توسیع کی جائے۔
طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے انخلا ء میں توسیع کی گزشتہ روز یہ کہہ کر سخت مخالفت کی تھی کہ اس سے متفقہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان سے انخلا ء کے مشن میں توسیع پر ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر انخلاء کے عمل کو مقررہ تاریخ سے آگے بڑھایا جاتا ہے تو اس کے سنگین نتائج بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مطلب، ”قبضے میں توسیع کرنا ہوگا، اور وہ ”ایک سرخ لکیر ہے۔”
ادھر کابل پر طالبان کے قبضے کے تقریباً نو روز بعد بھی شہر کے ایئر پورٹ پر افراتفری کا ماحول ہے اور ہزاروں لوگ ملک چھوڑنے کے لیے
اب بھی ایئر پورٹ کے آس پاس جمع ہیں۔ نیٹو کے مطابق اب تک حامد کرزئی ایئر پورٹ کے آس پاس کم سے کم بیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی مقننہ میں انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شف کا کہنا ہے انہیں ایسا نہیں لگتا کہ انخلاء کا عمل مقررہ وقت تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”جس بڑی تعداد میں اب بھی امریکیوں کے انخلاء کی ضرورت ہے، میرے خیال سے یہ 31 اگست تک پورا نہیں ہو سکے گا۔”
امریکی حکام کے مطابق اب بھی ایسے ہزاروں افغان شہری بھی پھنسے ہوئے ہیں جو امریکا اور اتحادی فورسز کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور ان سب کا محفوظ انخلاء بھی بہت اہم ہے۔ ان تمام امور کی ذمہ داری بھی تقریباً چھ ہزار امریکی فوجیوں نے سنبھال رکھی ہے اور ان فورسز کو بھی بالآخر کابل سے نکلنا ہے۔
معاشی اعتبار سے دنیا کے طاقتور سات ممالک کے گروپ جی سیون کی منگل کو ایک اہم میٹنگ ہو رہی ہے جس میں افغانستان کی صورت حال پر بات چیت ہو گی۔ امکان ہے کہ یہ تمام ممالک اس بحران کے حوالے سے ایک متفقہ موقف اختیار کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ کانفرنس ورچول ہوگی جس میں اس بات پر بھی بحث ہو گی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر کیا متفقہ موقف اختیار کیا جائے۔ اس بات پر بھی غور و فکر کیا جائے گا کہ اگر طالبان نے عالمی برادری کے مطالبات کو نظر انداز کیا تو ان پر کس طرح کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
ایک یورپی سفارت کار کا کہنا تھا، ”جی سیون رہنما طالبان کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قریبی تعاون کرنے پر اتفاق کریں گے اور وہ ایک ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کا بھی عہد کریں گے۔”
جرمنی میں ترقیاتی امور کے وزیر گیراڈ مولیر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ترقیاتی اداروں کے ملازمین کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان کی حالیہ یقین دہانیوں پر یقین نہیں ہے۔ ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا، ”پہلے ہی سے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری جاری ہے۔”
جرمن وزیر کو اس بات پر کافی تشویش لاحق ہے کہ جو افغان شہری جرمن ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کی زندگیوں کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے فراد کے انخلا ء کے لیے فضائی سروسز کے ساتھ دوسرے متبادل پر بھی غور کر رہی ہے تاکہ انہیں تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انخلا ء کے تعلق سے جو بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اس میں توسیع کی ضرورت ہے اور وہ اس حوالے سے برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ انخلا ء کے وقت میں توسیع کی جا سکے۔