دنیا کو طالبان کی افغانستان کے اقتدار میں واپسی پر اتنا پریشان دیکھا جا رہاہے جیسے کوئی انکے ملک کا اقتدار چھین رہا ہو، جبکہ طالبان نے تو اپنا اقتدار واپس لیا ہے اور اگر ہم پچھلے 20 بیس سالوں کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گاکہ شروع کے کچھ سال طالبان نے کم مزاحمت کی اسکے بعد تو صورتحال ایسی دیکھائی دیتی رہی کہ طالبان جب چاہتے کابل پر قبضہ کرسکتے تھے۔ کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے سوائے اپنے ممالک کی دولت اوراپنے فوجیوں کی قیمتی جانیں ضائع کروائی ہیں۔ خصوصی طور پر امریکی اور عمومی طور پر دیگر اتحادی ممالک کی عوام کو اپنے ارباب اختیار سے ان بیس سالوں کا حساب لینا چاہیے۔بہت سارے ممالک کے داخلی معاملات افغانستان سے بھی بد تر ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی دوسرا ملک یا بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت دی جاتی ہے۔ طالبان کی پریشانی براعظموں پر پھیلی ہوئی محسوس کی جارہی ہے۔ جیسے دنیا پر آفاقی نظام حکومت قائم ہونے جارہا ہے جس کے داعی یہ طالبان ہیں۔ پاکستان ابھی ماحول کا جائزہ بہت غور سے لے رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کی فلاح و بہبود کے لیے آگے آگے رہاہے۔طالبان نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو لگ بھگ بیس سال کا عرصہ دیا کہ وہ افغانستان کو اپنے بس میں کرلیں اور جیسانظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں لیکن واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی سوائے عمارتوں کی تعمیر اور تھوڑے بہت ترقیاتی منصوبوں کے سوا افغانستان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکے۔
جبکہ اس گمان کوبھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخی شکست اور بدترین بے عزتی پر پردہ ڈالنے کیلئے دنیا کی ساری توجہ کورونا کی وباء پھیلاکر اس طرف مبذول کروانے کی ممکن حد تک کوشش کی ہے۔ بظاہر یا البتہ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے جو تقریباً حرف عام بنی ہوئی ہے کہ افغانستان میں حفاظتی عملے یعنی افواج کو ترتیب دینے کیلیے بیس ارب ڈالر خرچ کئے گئے ہیں ، یہ بھی ایک موضوع ہے۔ طالبان اپنی تاریخ کے اعتبار سے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کا عزم رکھتے ہیں، جس کی مخالفت میں بیس سال قبل تقریباً دنیا کھڑی ہوگئی تھی اور طاقت کا ایسا زعم تھاکہ راتوں رات افغانستان کو اپنے قبضے میں کرلینگے۔ یاد رہے کہ پہلے برطانیہ جو اپنے وقت کا سپر پاور تھا، پھر سویت یونین(روس) جو اسوقت کا سپر پاور تھا اور اب ترقی یافتہ دور یعنی تکنیک کی ترقی کا دور اس دور کو چلانے والے سپر پاور امریکہ اور اسکے ساتھ دیگر ترقی یافتہ بھرپور تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ سے لیس افرادی قوت رکھنے والوں کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آج افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور طالبان نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور بحالی کیلئے رابطے شروع کردئے ہیں، ملک میں تعلیم کے ترویج کے عمل کو جاری رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ قوی امید ہے اور اللہ رب العزت پر ایمان ہے کہ طالبان کی حکومت نا صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں منوانے میں اپنا قلیدی کردار ادا رکرتے دیکھائی دینگے ۔طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخلے سے قبل افغان حکومت کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کے لیے بھی کام کرنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے مال و جان کی حفاظت امارات اسلامی افغانستان کی بنیادی ذمے داری ہے۔طالبانیوں نے کہا کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں ہے پوری دنیا میں ہماری شبیہ خراب کی گئی ہے۔ ہم نے عام معافی کا اعلان اسی لیے کیا ہے کہ تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہوسکے کہ طالبان دہشت گرد قوم نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے ہمیں بدنام کیاہم پر ایک پوری منصوبہ بند سازش کے تحت جنگ تھوپ دی گئی لیکن ہم نے آپس میں اتحاد کا مظاہرہ جیسے ہمیشہ کرتے آئے ہیں ویسے ہی اس بار بھی اتحاد اوراتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی چوہوں کو ہماری سرزمین سے بھگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
طالبانیوں نے کہا کہ ہم نے علی الاعلان معافی کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جس کو اگر شریعت پسند ہے تو وہ یہاں رہ سکتا ہے ورنہ وہ ملک چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ ہم کسی کو بھی زبردستی رہنے کے لیے اور شریعت پر پابندی کرنے کے لیے مجبور نہیں کریں گے۔طالبان نے امریکی عوام کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا اور یہ کہا کہ طالبان اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔ ہم خون خرابہ نہ پہلے چاہتے تھے اور نہ اب چاہیں گے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 19 سال کی جنگ نے یہ ثابت کیا ہے کہ افغان تنازع کو طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ اس جنگ نے نہ صرف افغان عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے بلکہ امریکہ کو بھی بھاری جانی اور مالی نقصان اْٹھانا پڑا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ ہر قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ ہر قسم کے بیرونی خطرے، دھمکیوں اور مداخلت کے بغیر اپنی اقدار اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارے۔ لہذٰا گزشتہ 19 سال سے افغانستان میں جاری ہماری مزاحمت انہیں اْصولوں پر مبنی ہے۔
طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔اسی موقع پر حاجی حکمت کہتے ہیں کہ ‘ہم ہر چیز کے لیے تیار ہیں۔ ہم امن کے لیے تیار ہیں اور ہم جہاد کے لیے بھی مکمل طور پر تیار ہیں۔آج جس طرح سے طالبان فاتحانہ انداز میں پورے افغانستان پر دوبارہ قابض ہوگئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب دنیا کے حالات بہت جلد کروٹ لینے والے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل جیسے دہشت گردوں کی اب بہت جلد اینٹ سے اینٹ بجنے والی ہیں۔ لہذا یہ سبق ہے ان ظالم حکمرانوں کے لیے کہ اگر ظلم وزیادتی کروں گے تو اللہ تم پر تم سے بہتر اور جاندار اور شاندار لوگوں کو نافذ کرے گا اور تمہارے ظلم کو ملیا میٹ کر دے گا۔