اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ہائی کورٹ نے گریڈ 22 کے افسران اور اعلی عدلیہ کے ججز کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی غیر قانونی قرار دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیوروکریٹس کو دوسرے پلاٹ کی الاٹمنٹ کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 24 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے جاری کیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اعلی عدلیہ کے ججز اور سول سرونٹس کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں، عدالت کے سامنے نشاندہی کی گئی کہ اعلی عدلیہ کے ججز وہی مراعات لے سکتے ہیں جو ان کے لیے قانون میں مقرر ہیں، ججز کو پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق آئین کا آرٹیکل 205 اور صدارتی آرڈر 1997 خاموش ہے۔
گریڈ 22 کے افسران اور اعلی عدلیہ کے ججز کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی غیر قانونی ہے، حکومت اگر ججز اور سول سرونٹس کو اضافی پلاٹ دینا چاہتی ہے تو پہلے قانون سازی کرے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، ہاؤسنگ اور قانون و انصاف کے سیکریٹریز یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھیں، وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق اس معاملے کا جائزہ لیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ قانون نا ہونے کے باوجود سول سرونٹس کو دوسرا پلاٹ ملنا ریاست کے برابری کے بنیادی اصول سے انحراف ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان امتیازی سلوک کے تصور کو زائل کرے، ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں سمیت دیگر شہریوں کو آئین کے مطابق برابر کے حقوق دے، توقع ہے وفاقی حکومت اور وزیراعظم امتیازی سلوک کے بغیر قانون سازی کے ذریعے قانون کا صحیح نفاذ کریں گے۔