عراق کانفرنس: مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے پر تبادلہ خیال

Iraq Conference

Iraq Conference

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کی میزبانی میں ہفتے کے روز ایک علاقائی کانفرنس ہورہی ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس میٹنگ کو بغداد کے خود کو فطری مصالحت کار کے ایک نئے کردار کے طورپر پیش کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے۔ فرانس اس کانفرنس کا شریک میزبان ہے۔

اس کانفرنس میں جن ملکوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے ان میں دو دیرینہ حریف ایران اور سعودی عرب شامل ہیں۔ جن کی ایک دوسرے کے خلاف حریفانہ سرگرمیاں اکثر عراق اوردیگر ممالک بشمول یمن اور لبنان میں دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔

سعودی عرب نے کہا کہ وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اس میٹنگ میں مملکت سعودیہ کی نمائندگی کریں گے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کانفرنس میں ایران کی نمائندگی کون کرے گا۔ البتہ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایران کے نئے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان میٹنگ میں شرکت کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ کانفرنس میں مصرکے صدر عبدالفتح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ کی شرکت بھی متوقع ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں میٹنگ میں شرکت کے لیے پہلے ہی بغداد پہنچ چکے ہیں۔ فرانس اس کانفرنس کا شریک میزبان ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس میٹنگ میں خطے میں آبی بحران، یمن میں جنگ اور لبنان میں شدید اقتصادی اور سیاسی بحران، جس نے اس ملک کو تقریباً تباہی کے دہانے پر لادیا ہے، پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

یہ علاقائی میٹنگ عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کے لیے اپنی کوششوں کو پیش کرنے کا ایک موقع ہوگا۔ وہ عراق کو خطے کے بحران کے حل کے لیے ایک فطری مصالحت کار اور دہائیوں تک جاری رہنے والے تصادم کے بعد دنیا کے ساتھ ازسرنو رابطہ قائم کرنے والے ملک کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عراقی عہدیداروں کے مطابق اس سال کے اوائل میں ایران نے دو حریف ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین براہ راست کئی دور کی میٹنگوں کی میزبانی کی تھی۔ جس میں جونیئر سطح کے عہدیداروں نے یمن اور لبنان سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ان مذاکرات سے برسوں کی دشمنی کو ممکنہ طورپر کم کرنے میں مدد کا اشارہ ملا تھا۔ پڑوسی ملکوں میں دیرینہ دشمنی کا نتیجہ اکثرکشیدگی اور کم از کم ایک جنگ کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔

اب تک ہونے والے یہ مذاکرات گوکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہم تھے تاہم ان سے کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی۔ تاریخی لحاظ سے یمن سے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے ذریعہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہیں ہوسکے ہیں۔ بہر حال تہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے۔ سن 2016 کے اوائل میں سعودی عرب میں ایک شیعہ مذہبی رہنما کو سزائے موت دیے جانے سے ناراض ایرانیوں نے تہران میں سعودی سفارت خانے کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دیگر خلیجی ممالک عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔ سعودی عرب تہران کے ساتھ بات چیت کرنے کا خواہش مند ہے کیونکہ وہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں برسوں سے جاری اپنی جنگ ختم کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف تہران نے بھی غالباً یہ اندازہ لگالیا ہے کہ امریکا کے دیرینہ اتحادی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں مرحلہ وار بہتری اس کے حق میں ہوگی اور اس سے امریکا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت میں مدد ملے گی۔

عراق کے لیے اس میٹنگ کی میزبانی کو ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ دہائیوں تک تصادم سے دوچار رہنے کے بعد عراق ایک بارپھر عرب دنیا میں اپنا قائدانہ کردار اور اپنی حیثیت بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ عراق کے چوٹی کے رہنما یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ ایران اور امریکا نیز ان کے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔