اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ اور صدر جو بائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات سے واقف دو امریکی ذرائع نے بینیٹ کے حوالے سے کہا کہ امریکی صدر سے جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں بینیٹ نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے پرامریکا کی واپسی کی مخالفت کے باوجود وہ اپنے پیش رو نیتن یاھو کی طرح ایران کے خلاف اعلانیہ مہم نہیں چلائیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے امریکی صدرجو بائیڈن سے اپنی ملاقات میں ایران کے خلاف محاذ آرائی کا جو منصوبہ پیش کیا اسے اسرائیلی حکام نے ایران کے خلاف “ہزار زخموں کے ساتھ موت” کی حکمت عملی قرار دیا۔
ذاتی تعلقات قائم کرنے کے علاوہ بائیڈن کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں بینیٹ کا بنیادی مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام میں اہم پیش رفت کے بارے میں اپنی فوری ضرورت کا اظہار کرنا تھا۔
پردے کے پیچھے اسرائیلی حکام نے کہا کہ بینیٹ نے بائیڈن کو جو حکمت عملی پیش کی اس میں ایران کا سامنا ایک فوجی ڈرامائی حملے کے بجائے کئی فوجی اور سفارتی محاذوں پرچھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے کرنا ہے۔
بینیٹ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کا موازنہ سرد جنگ کے دوران امریکا اور سوویت یونین کے درمیان محاذ آرائی سے کیا۔ عہدیدار نے کہا کہ وزیراعظم نے باورکرایا کہ اسرائیل خطے کا امریکا ہے اورایران سوویت یونین ہے جس کی حکومت کرپٹ اور زوال پذیر ہے۔
بینیٹ نے بائیڈن کو بتایا کہ امریکا اور اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام اور ایران کی علاقائی جارحیت کو ’واپس باکس‘ میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لیے اس نے بائیڈن سے کہا کہ وہ عراق اور شام سے امریکی افواج کو واپس نہ نکالیں۔ اسرائیلی وفد اس محاذ پربائیڈن کے موقف سے پرامید دکھائی دیا۔ بینیٹ نے بائیڈن کو بتایا کہ وہ 2015 کے ایٹمی معاہدے کی واپسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایران کی جوہری پیش رفت کے بعد اس معاہدے کی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔
عہدیداروں نے کہا کہ بائیڈن ایران کے اس معاہدے کی پاسداری کی واپسی کے امکان کے بارے میں پرامید نظر نہیں آئے۔
بینیٹ دو باتوں پر بہت خوش تھے جو بائیڈن نے اپنی ملاقات کے دوران پریس سے اپنے بیانات میں کیں۔
پہلی یہ بائیڈن نے اپنے سابقہ بیانات کو بڑھاتے ہوئے کہا ایران ان کے دور میں جوہری ہتھیارنہیں بنا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار کبھی نہیں حاصل کرنےدیں گے۔
دوسری بائیڈن نے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہو جاتی ہے تو ، وہ پلان بی کے لیے بینیٹ کے مطالبات پرمل درآمد کرتے ہوئے تہران کے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کریں گے۔