افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کی دو دہائیوں پر محیط غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ طالبان اب افغانستان پر حکومتی عمل کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہیں لیکن انہیں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
امریکی فوجی انخلا اور سابقہ صدر اشرف غنی کے حکومت چھوڑ کر فرار ہونے کے بعد افغانستان کو ایک ناقابل بیان عدم استحکام کے عبوری دور کا سامنا ہے۔ معاشی اعتبار سے اس غریب ملک کو کافی حد تک سفارتی تنہائی کا بھی سامنا ہے اور یہ سیاسی و معاشرتی تقسیم کی وجہ سے نئی طالبان حکومت کے لیے بہت سی نوعیت کی مشکلات کا سبب بنے گا۔
ان میں سے ایک پنجشیر صوبے کا چیلنج ہے، جس نے معمول سے زیادہ سیاسی منفعت کے لیے پہلے ہی اپنی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس صوبے پر مکمل کنٹرول کے لیے طالبان عسکریت پسند جارحیت سے کام لے رہے ہیں۔
پنجشیر کی صورت حال واضح نہیں اور متضاد غیر مصدقہ خبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ البتہ ایک درست بات ہے کہ فریقین کے درمیان اختلافی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت جاری تو ہے لیکن اس میں پیش رفت نا ہونے کے برابر ہے۔
افغان مبصرین کا کہنا ہے کہ بقیہ ملک پر طالبان کو کنٹرول حاصل کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں رہا لیکن پنجشیر صوبے نے ماضی کی طرح کابل حکومت کی قیادت سے فی الحال انحراف کر رکھا ہے اور دیکھنا یہ ہو گا کہ مقتول جنگی سردار احمد شاہ مسعود کے بیٹے کس حد تک طالبان کے اثر کو تسلیم کرتے ہیں۔
سابقہ دور حکومت (سن 1996 سے 2001 تک) میں طالبان کا خواتین کے ساتھ رویہ انتہائی سخت اور کسی حد تک شرمناک بھی قرار دیا گیا تھا۔ ان کی اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کی تشریح انتہائی قدامت پسندانہ اور شدید تھی اور اس پر مغربی اقوام کی کڑی تنقید بھی سامنے آئی تھی۔
خواتین کو تعلیم اور عوامی مقامات سے دور رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ مخالفین پر ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا اور مذہبی اقلیتوں کو بھی کنارے لگا دیا گیا تھا۔
اب طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ایک نرم رو حکومت کا قیام عمل میں لائیں گے اور اس کے لیے ہر طبقہ فکر کے ساتھ گفتگو کی جائے گی تا کہ ایک مناسب سیاسی نظام وضح کیا جا سکے۔
گفتگو کے اس عمل میں سابق صدر حامد کرزئی اور شمالی حصے کے اہم سیاستدان عبداللہ عبداللہ بھی شریک ہیں۔ طالبان نے اسی سلسلے میں ایک نمائندہ وفد ملک کی شیعہ ہزارا اقلیت کو بھی روانہ کیا ہے۔
افغان شہروں کی خواتین ابھی بھی خوفزدہ ہیں حالانکہ طالبان کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملکی عورتوں کے ساتھ سلوک ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہو گا لیکن اس کا اندازہ تب ہی ہو گا جب ایک دفعہ باقاعدہ حکومتی عمل شروع ہو جائے گا۔
دوسری جانب افغانستان کی معاشی حالات بہت گھمبیر ہیں کیونکہ اس کی معیشت کا چالیس فیصد سے بھی زیادہ انحصار غیر ملکی امداد پر رہا ہے۔ نئے حالات میں غیر ملکی امدادی سلسلہ معطل ہو چکا ہے اور اس کی بحالی طالبان کے اندازِ حکومت پر منحصر ہو گی۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ صورت حال بہتر نہ ہوئی تو خوراک کے گودام خالی ہونے پر عام شہریوں کو بھوک مٹانے کے لیے خوراک اور پانی بھی مشکل سے دستیاب ہو گا۔ عالمی ادارے نے اس ملک میں کسی بھی وقت انسانی المیے کے جنم لینے کے خطرے سے بھی آگاہ کیا ہے۔
طالبان کو معاشی بوجھ کا تو سامنا یقینی ہو گا لیکن ایک اور مشکل اس ملک سے ہنرمند افراد کا روانہ ہونا ہے۔ اس ‘برین ڈرین‘ کی مشکل پر قابو پانا طالبان حکومت کے لیے بہت ہی مشکل ہو سکتا ہے۔
بے شمار تجربہ کار، ہنر مند اور پڑھے لکھے افغان شہریوں نے کمزور ہوتی اشرف غنی حکومت کے دور ہی میں ملک چھوڑ دینے میں عافیت جانی تھی۔ ان افراد میں بیوروکریٹس، بینکرز، ڈاکٹرز، انجینیئرز، پروفیسرز اور بے شمار یونیورسٹی گریجویٹس شامل ہیں۔
دوسری جانب طالبان اس ‘برین ڈرین‘ کا کسی حد تک احساس رکھتے ہیں کیونکہ اس کے منفی اثرات تو نئی کابل حکومت ہی کی معاشی ٹیم نے برداشت کرنے ہیں۔ اسی تناظر میں طالبان کے ترجمان نے خاص طور پر ڈاکٹروں اور انجینیئروں کو ملک ہی میں رہنے کی تلقین کی تھی۔