کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اعلیٰ فوجی حکام نے عسکریت پسندوں کے والدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مبصرین اسے بھارتی حکومت کی پبلک ریلیشنز کی ایک کوشش کا نام دے رہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ملکی فوج نے پہلی بار سرگرم عسکریت پسندوں کے والدین کے ساتھ رابطوں کی انوکھی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلے میں 31 اگست منگل کے روز پہلی بار جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں فوج اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے وادی میں فعال عسکریت پسندوں کے درجنوں اہل خانہ سے ملاقات کی۔
بھارتی حکومت اور فوج کشمیر میں شدت پسندوں کے حوالے سے بہت سخت رویہ رکھتی ہیں اور عمومی بیانات میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی فورسز کی جانب سے حالیہ برسوں کے دوران یہ بظاہر ایک نئی حکمت عملی محسوس ہوتی ہے۔
بھارتی عسکری حکام نے شوپیاں میں جن اسّی خاندانوں کو جمع کیا تھا، ان سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گيا کہ وہ اپنے ارکان کو عسکریت پسندی ترک کرنے اور سماج کے اصل دھارے میں ’دوبارہ شامل کرنے کے لیے ان کی رہنمائی کریں‘۔
کشمیر میں بھارتی فوج کی قیادت کرنے والے دستوں کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے، میجر جنرل رشیم بالی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار جیسے کئی سینیئر افسروں نے شوپیاں کے اس اجتماع میں کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے والدین سے تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر خطے کے فوجی سربراہ نے شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ سرگرم عسکریت پسندوں کے والدین سے ان کی براہ راست بات ہو، ’’تاکہ میں آپ سے گزارش کر سکوں کہ آپ اپنے بچوں کو اس سے باہر نکالیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’خاموشی سے انہیں باہر نکالیں، مجھے نہیں معلوم، یہ آپ پر منحصر ہے۔ لیکن آپریشن کے دوران اگر کوئی لڑکا ہتھیار ڈالتا ہے، تو ہم وہ گولی اور زخم کھانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن آپ اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ باقی فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے اس بارے میں عسکریت پسندوں کے اہل خانہ سے براہ راست بات کی ہو۔ اطلاعات کے مطابق جن خاندانوں نے اس اجتماع میں شرکت کی، ان میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی کشمیر سے تھا کیونکہ فی الوقت جنوبی اضلاع اننت ناگ، شوپیاں، پلوامہ اور کلگام میں عسکریت پسندی کا زور زیادہ ہے۔
اس حوالے سے بھارتی وزارت دفاع نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس تبادلہ خیال کا مقصد عسکریت پسندوں کے اہل خانہ میں فوج کے مقاصد کو اجاگر کرنا تھا۔
بیان کے مطابق، ’’معاشرتی اور خاندانی مدد مردوں کو تشدد اور موت کے راستے سے دور کر سکتی ہے۔ سکیورٹی فورسز ’غیر مسلح دہشت گردوں‘ پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پس منظر میں ہوتے ہیں۔ اہم مقصد تشدد کے دائرے کو توڑنا ہے۔‘‘
عام طور پر کشمیر میں بھارتی فوج کا رویہ بہت سخت رہا ہے۔ لیکن اچانک اس میں نرمی اور تبدیلی کیوں آئی؟ سری نگر کے سینیئر صحافی الطاف حسین کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت عالمی برادری کو دکھانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں ”شدت پسندی کے چیلنج کے حوالے سے بھارتی حکومت اور سکیورٹی ایجنسیاں جتنا جھوٹ بولتی ہیں، اتنا جھوٹ میں نے کبھی نہیں سنا۔‘‘
الطاف حسین کے مطابق کشمیر میں اس وقت جو بھی عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ بہت سوچ سمجھ کر جاتا ہے اور اب یہ کوئی فیشن نہیں رہا۔ ”اب حالات بدل چکے ہیں، عسکریت پسند اپنے ماں باپ کی نہیں سنتے۔ اگر سنتے، تو وہ پہلے ہی واپس آ چکے ہوتے۔ تو پھر فوج کے کہنے پر وہ کیسے مان جائیں گے؟‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ”بھارتی حکومت کی یہ ایک پبلک ریلیشنز کی کوشش ہے۔ اگر ایک فیصد بھی فائدہ ہو، تو بھی ٹھیک۔ ورنہ ان کا کیا جاتا ہے؟ لیکن لوگوں کو دکھایا تو جا ہی سکتا ہے۔ کشمیر میں اعتماد سازی اور تشدد کے خاتمے کے لیے سیاسی عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
الطاف حسین کے مطابق کشمیر پر اس وقت فوج کا مکمل کنٹرول ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کوئی سکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ ”اصل مسئلہ بھارت سے بیزار ہونے اور ناراضگی کا ہے۔ تو اس کے حل کے لیے سیاسی عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘