افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی انخلا تو مکمل ہوا مگر افغانستان سے فرار ہو کر پناہ کی تلاش میں نکلنے والے مہاجرین کی ذمہ داری اب کون اُٹھائے گا؟ یورپی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک یہ ذمہ داری لینے پر آمادہ ہو جائیں۔
افغان مہاجرین کا بحران عالمی برادری، خاص طور سے اس کے پڑوسی ممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چُکا ہے۔ ایران اور پاکستان کی طرف نگاہیں اُٹھ رہی ہیں تاہم یہ دونوں ہی مزید افغان مہاجرین کی ذمہ داری کے متحمل نظر نہیں آ رہے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے افغان باشندے جنگ، غربت اور طالبان کے خوف سے فرار ہو کر ایران کا رُخ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اندازوں کے مطابق 30 لاکھ افغان باشندے اس وقت ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک ملین افغان باشندے بطور مہاجرین ایران میں رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں ایرانی اتھارٹیز کی طرف سے مختصر مدت کے رہائشی اور محدود کام کے اجازت نامے دیے گئے ہیں۔ باقی ڈیڑھ ملین مہاجرین کے پاس نا تو کاغذات ہیں نہ ہی ان کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔ ان میں سے اکثریت کا گزر بسر تعمیراتی مقامات پر مزدوری کر کے یا بڑے شہروں کے مضافات میں بڑی کمپنیوں میں سستی مزدوری کر کے ہوتا ہے۔ کسی قانونی حیثیت کے حامل نا ہونے کی وجہ سے یہ افغان باشندے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔
جن افغان باشندوں کے پاس چار پیسے جمع ہو جاتے ہیں وہ سب سے پہلے کسی افغان، ایرانی یا ترک اسمگلر سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی مدد سے اپنی قسمت آزمانے کے لیے یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔ ایران کی ترکی کیساتھ 560 کلو میٹر طویل سرحد ملتی ہے۔ افغانستان کے حالیہ بحران کے تناظر میں ترکی اس وقت ایران سے ملحقہ سرحد پر تین میٹر اونچی اور 150 کلو میٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کر رہا ہے۔
افغانستان سے امریکی اور دیگر بین الاقوامی فوجیوں کے انخلا کے بعد سے ترکی نے اپنے سرحدی علاقوں کی بندش کے منصوبے پر تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ ملی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا نا ممکن ہے۔ ایران اور شمالی افغانستان میں آباد تاجک اور ہزارہ نسلی گروپوں کے مابین بہت قریبی ثقافتی اور لسانی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان اور ایران کے درمیان باضابطہ تین سرحدی گزرگاہیں موجود ہیں اور اس کے افغانستان کی طرف کے زونز پر اب طالبان کا قبضہ ہے۔ اس علاقے سے کوئی مہاجر باہر نہیں جا سکتا۔
ایران کی وزارت داخلہ کے ترجمان مہدی ماہودی کا کہنا ہے،” ہمارے پاس مہاجرین کے لیے کوئی استقبالیہ زون نہیں۔‘‘ 18 اگست کو تہران حکومت نے کسی ایسے زون کے قیام سے متعلق ماضی کی خبروں کی تردید کر دی تھی۔ افغان شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے مہدی ماہودی نے کہا،” افغانستان کی صورتحال مستحکم ہے اور مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘‘
ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایک ایرانی خاتون صحافی بنی یعقوب نے کہا کہ اب بہت سے افغان باشندے پاکستان کے رستے ایران اور وہاں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ ایران کی پاکستان کیساتھ بھی سرحد ملتی ہے۔ 950 کلومیٹر طویل۔ ایرانی صحافی نے کہا،” ان مہاجرین کی مدد کی جانی چاہیے، انہیں کوئی مستقبل فراہم کرنا ہوگا۔ ان انسانوں کو بین الاقوامی برادری سے فوری ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی سمیت یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک افغان پناہ گزینوں کے یورپ کی طرف ممکنہ بہاؤ کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے بارے میں فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ برسلز میں یونین کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ کے ایک خصوصی اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو روکا جائے گا اور ضرورت مند افراد کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں تحفظ دیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے نتیجے میں تقریباﹰ پانچ لاکھ تک افغان شہری پناہ کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ سکتے ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران یقین دہانی کرائی تھی کہ جرمنی اس خطے کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ پاکستان کو جرمن وزیر خارجہ نے ممکنہ امداد کی پیشکش بھی کی۔ جرمنی نے موجودہ بحرانی صورتحال کے پیش نظر افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے لیے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کا بوجھ بانٹنے کی خاطر 500 ملین یورو کی امداد فراہم کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ماضی میں آئے ہوئے 1.4 ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید چھ لاکھ غیر اندراج شدہ یا غیر قانونی طور پر آئے ہوئے افغان مہاجر بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اسلام آباد حکومت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اُٹھانا چاہتی۔ جرمن وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کے دوران ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی نے واضح الفاظ میں کہا کہ،”پاکستان کے لیے سوال پیسوں کا نہیں، گنجائش کی کمی کا ہے۔‘‘