افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور اتحادی ممالک افغانستان سے نکل ضرور چکے ہیں، مگر امریکی صدر جوبائیڈن کے مطابق ان کو اب بھی طالبان پر وہ ’’لیوریج ‘‘ موجود ہے کہ ان سے وعدوں کی پاس داری کے مطابق شہری انخلا کا راستہ کھلا رکھوایا جا سکے۔
امریکی صدر کے طالبان کے حوالے سے قدرے نرم بیانات ہی کی طرز کے جملے متعدد دیگر مغربی ممالک کے رہنماؤں اور سرکاری عہدیداروں کی جانب سے دیکھے جا رہے ہیں، جن میں کہا جا رہا ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پرتشدد ماضی سے فاصلہ رکھیں۔ مغربی دارالحکومتوں سے سامنے آنے والے بیانات کے مطابق توانائی، خوراک اور غیرملکی مدد پر کھڑی افغان معیشت کے تناظر میں طالبان کو سزا اور نفع کے اصول کے تحت مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی معاونت سے اجتناب برتیں۔
اس حوالے سے آئیے جانچتے ہیں وہ چند اہم راستے جو مغربی ممالک مستقبل میں طالبان سے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور دیگر شہری آزادیوں کے مطالبات منوانے کے لیے اختیار کر سکتے ہیں۔
افغانستان پر دباؤ کے حوالے سے سب سے کلیدی کردار امریکا کا ہے۔ افغانستان کا نو ارب ڈالر کا سونا اور دیگر زرمبادلہ کے ذخائر پر سب سے زیادہ کنٹرول امریکا کا ہے۔ اس میں سات ارب ڈالر امریکا میں موجود ہیں، دیگر 1.3 ارب ڈالر مختلف بین الاقوامی بینکوں میں ہیں جب کہ سات لاکھ ڈالر بین الاقوامی اداروں کے کھاتے میں ہیں۔ یہ بات افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر نے ملک سے فرار کے بعد اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھی تھی۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکا نے اس تمام سرمایے کو بلاک کر دیا ہے اور اب امریکا یا امریکا سے باہر کسی بھی دوسری جگہ افغان حکومت کے کسی بھی اثاثے تک طالبان کی رسائی نہیں ہے اور یہ تمام اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی آئی ایم ایف کے وسائل تک طالبان کی رسائی روک دی ہے، جن میں چار سو چار ملین ڈالر کے ہنگامی ذخائر بھی شامل ہیں۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی بعض تنظیمیں امریکا سمیت مختلف ممالک پر زور دے رہی ہیں کہ وہ افغان اثاثوں کے حوالے سے کچھ نرمی کریں، تاکہ کچھ سرمایہ اور امداد افغانستان پہنچ سکے۔ تاہم ایسی کسی اجازت کی صورت میں بھی شرائط اور نگرانی نہایت سخت ہو گی۔ ایک روسی عہدیدار نے کہا کہ ایسے حالات میں طالبان کو منشیات یا ہتھیاروں کی تجارت کی جانب بڑھنا پڑ جائے گا۔
افغان معیشت میں برآمدات پر انحصار بے حد کلیدی نوعیت کا عنصر ہے، جس میں خوراک، ایندھن اور کپڑے اہم ترین ہیں۔ افغانستان نے سن 2019 میں 8.6 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کی تھیں۔ عالمی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق درآمدی مصنوعات میں گندم اور پیٹرولیم مصنوعات سرفہرست تھیں، جب کہ ملکی ضرورت کی 70 فیصد بجلی (جس کی مالیت قریب دو سو ستر ملین ڈالر بنتی ہے) درآمد کی گئی۔
ڈالر کے استعمال اور زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی کے بغیر طالبان درآمدات کی سرگرمیاں شروع نہیں کر سکتے۔ امریکی اعداد وشمار کے مطابق افغانستان کے غیرملکی اثاثے منجمد رہیں، تو طالبان فقط دو روز تک کی درآمدات کی ادائیگیاں کر سکتے ہیں۔ امریکا اور اتحادی ممالک افغان اثاثوں تک رسائی کو طالبان کے رویے کے ساتھ مشروط کر سکتے ہیں۔
دنیا کے دو اہم ترین مالیاتی اداروں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر امریکا اور اتحادی ممالک کا بے حد اثر ہے۔ عالمی بینک افغانستان میں تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ کی نگرانی کر تا ہے جب کہ عالمی بینک ہی اربوں ڈالر افغان حکومت اور افغانستان میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو دیتا رہا ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد عالمی بینک نے ان فنڈز کو روک دیا ہے جب کہ مستقبل غیر یقینی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی وزارت خزانہ نے ایک خصوصی مگر محدود لائسنس جاری کیا ہے، جس کے تحت حکومت اور پارٹنرز کو افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی اجازت دی گئے ہے۔
کابل پر 15 اگست کو طالبان کے قبضے سے قبل ہر سال افغانستان کے لیے ساڑھے آٹھ ارب سالانہ کی امداد پہنچ رہی تھی، جو مجموعی قومی پیدوار کا 43 فیصد بنتی ہے۔ اس سے عوامی شعبے کے 75 فیصد، بجٹ کا 50 فیصد جب کہ حکومت کے سکیورٹی اخراجات کا نوے فیصد ادا ہوتا تھا۔ مستقبل میں ایسی کسی بھی معاونت کو طالبان کی سرگرمیوں سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
طالبان بطور گروہ جب کہ متعدد اہم طالبان رہنما پہلے ہی امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی زد میں ہیں، جس کے ذریعے ان کی ڈالر ٹرانزیکشنز اور امریکی مالیاتی نظام تک رسائی کٹی ہوئی ہے۔ مغربی کاروباری ادارے طالبان کے ساتھ کاروبار کرنے سے اجتناب برتتے ہیں، تاکہ کہیں وہ بھی امریکی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہو جائیں، کیوں کہ ان پابندیوں کو ہٹانے کے لیے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم امریکی محکمہ خزانہ طالبان کے رویے کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ لین دین کےاجازت ناموں کے اجرا کا تعین کر سکتا ہے۔
افغان معیشت میں ترسیلات زر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور یہ مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ویسٹرن یونین اور منی گرام جیسے ادارے افغانستان کے لیے اپنے خدمات روک چکے ہیں۔ اس طرح بیرون ملک مقیم افغان اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجنے سے معذور ہیں۔ ان سروسز کی بحالی کے لیے امریکی مالیاتی پابندیوں میں نرمی درکار ہو گی اور اس کے لیے بھی امریکا طالبان کے رویے کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے۔