افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والی فورس کے سربراہ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے لڑنے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
طالبان افغانستان کے 34 میں سے 33 صوبوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں تاہم وادی پنجشیر میں مذاکرات کے کئی دور ناکام ہونے کے بعد 2 روز سے طالبان اور مزاحمتی فورس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
گزشتہ روز طالبان کی جانب سے وادی پنجشیر کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا تاہم ترجمان مزاحمتی فورس نے طالبان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے۔
اب احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور مزاحمتی فورس کے سربراہ احمد مسعود نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے مزاحمت اور لڑائی کرنا نہیں چھوڑیں گے، یہ مزاحمت صرف وادی پنجشیر تک محدود نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق کے لیے کوشاں افغان خواتین بھی اس جدوجہد میں شامل ہیں۔
سربراہ مزاحمتی فورس کا کہنا ہے کہ افغان عوام آزادی اور انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں، مزاحمت جاری رکھیں گے، پنجشیر میں مزاحمت اب تک مضبوطی سے جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔
طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہو سکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہو سکتی ہے۔
ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہوسکتا ہے۔
افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔
پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے 90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔