کیوبا (اصل میڈیا ڈیسک) نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیح محمد اور چار دیگر افراد 15 برس سے گوانتانامو بے جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت ایسے وقت شروع ہو رہی ہے جب ٹوئن ٹاورز پر حملوں کے 20 برس مکمل ہونے والے ہیں۔
کیوبا کی گوانتانامو بے جیل میں تقریباً 15 سال سے قید خالد شیخ محمد اور چار دیگر ملزمان سن 2019 کے اوائل کے بعد پہلی مرتبہ منگل کے روز فوجی ٹرائیبونل کے سامنے پیش ہوں گے۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مقدمے کی سماعت 2019 کے اوائل میں موخر کردی گئی تھی اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ دوبارہ وہیں سے شروع ہوگی جہاں اسے چھوڑ ا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ملزمان کے وکلاء دفاع کی کوشش ہوگی کہ مدعا علیہان پر سی آئی اے کی حراست میں تشدد کرکے حکومت نے جو شواہد حاصل کیے ہیں انہیں غیر معتبر یا نا اہل قرار دیا جائے۔
اس مقدمے کے آٹھویں اورنئے ملٹری جج ایئر فورس کے کرنل میتھیو میک کال نے اتوار کے روز اشارہ دیا کہ مقدمے کی سماعت سست رفتار سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل منگل کے روز ابتدائی سماعت ان کی اہلیت کے بارے میں ہوگی۔ دراصل فریقین کے وکلاء کو جنگی جرائم ٹرائیبونل میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ ممکنہ تعصب کے خدشے کے پیش نظر کسی نئے جج سے اس کی اہلیت کے حوالے سے سوالات کر سکتے ہیں۔
ہفتے کے بقیہ دنوں میں بیشتر اوقات فوجی استغاثہ اور وکلاء دفاع کے درمیان میٹنگوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
فوجی وکلاء کی طرف سے شواہد فراہم کرنے سے انکار کے خلاف کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں اور وکلاء دفاع کا کہنا ہے کہ مقدمے سے پہلے کا مرحلہ بڑی آسانی سے مزید ایک سال تک جاری رہ سکتا ہے اور اس دوران جیوری ٹرائل اور فیصلے کی کوئی امید نہیں ہے۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ پانچوں ملزمین خالد شیخ محمد، عمار البلوچی، ولید بن عطش، رمزی بن الشیبہ اور مصطفی الحوساوی، لاغر ہیں اور سن 2006 سے 2006 کے درمیان سی آئی اے کے خفیہ ‘سیاہ قید خانوں‘ میں دی جانے والی شدید اذیت کے دیرپا اثرات کا شکار ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کو یہاں لائے جانے کے بعد سے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران جس طرح سخت حالات میں اور الگ تھلگ رکھا گیا ہے، اس کا بھی ان پر مجموعی اثر ہے۔
ان پانچوں کو ایک انتہائی محفوظ اور خاردار تاروں سے گھرے ہوئے ملٹری کمیشن کے کمرہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ان میں سے ہر ایک ملزم اپنی دفاعی ٹیم کے ساتھ ہوگا۔ حاضرین میں ان 2976 افراد میں سے بعض کے اہل خانہ ہوں گے، جن کے قتل کا الزام ملزمان پر عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد بھی موجود ہوگی۔
ان پانچوں ملزمان کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت جنگی جرائم کی ٹرائیبونل موت کی سزا دے چکی ہے۔ ملزمان کا دفاع فوج کے نامزد کردہ وکلاء اور پرائیوٹ سیکٹر اور غیر سرکاری تنظیمیں کررہی ہیں۔
جب سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ہے وکلاء دفاع اسے سی آئی اے کی ظالمانہ تفتیش کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات پر مبنی ایک ‘اوپن اینڈ شَٹ‘ کیس قرار دے رہے ہیں۔ تاہم استغاثہ کا کہنا ہے کہ سن 2007 میں پانچوں ملزمان کے گوانتانامو بے پہنچنے کے بعد ایف بی آئی کی نام نہاد’کلین ٹیم‘ نے ان سے پوچھ گچھ کی تھی اور اس سے نائن الیون حملوں میں سازش کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وکلاء دفاع کے مطابق یہ پوچھ گچھ شاید ہی ’صاف ستھری‘ تھی کیونکہ ایف بی آئی نے بھی سی بی آئی کے ٹارچر پروگرام میں حصہ لیا تھا اور ان کی جانب سے بھی پوچھ گچھ میں تشدد کا عنصر نمایاں تھا۔
وکلاء دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ مدعا علیہان اس وقت بھی تشدد کے اثرات محسوس کر رہے تھے اور خوف کی حالت میں ہی ایف بی آئی سے بات چیت کی تھی۔
بلوچی کی نمائندگی کرنے والے وکیل کونیل کا کہنا تھاکہ تشدد کی پردہ پوشی کرنے کے لیے ہی ان لوگوں کو امریکی وفاقی نظام انصاف کے بجائے گوانتاناموبے لایا گیا۔ انہوں نے کہا،”تشدد کی پردہ پوشی بھی ایک وجہ ہے کہ ہم سب نائن الیون فوجی کمیشن میں 42 ویں سماعت کے موقع پر گوانتاناموبے میں جمع ہیں۔”
ملزمان کے وکلاء اپنے موکل کی دفاع کے لیے بعض خفیہ مواد کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومت اسے فراہم کرنے سے منع کررہی ہے۔ ان خفیہ مواد میں دراصل تشدد کے اصل پروگرام سے لے کر گوانتاناموبے کے حالات اور ملزمان کی صحت وغیرہ کی تفصیلات موجود ہیں۔ وکلاء دفاع مزید گواہوں سے بھی جرح کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک 12گواہان عدالت میں پیش ہوچکے ہیں جن میں سی آئی اے پروگرام کی نگرانی کرنے والے دو اہلکار شامل ہیں۔
ان مطالبات کی وجہ سے بھی مقدمے کی سماعت میں تاخیر ہوئی ہے جبکہ وکلاء دفاع نے حکومت پر کیس سے متعلق مواد کو چھپانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
ایک وکیل دفاع الکا پردھان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے اس بات کو تسلیم کرنے میں ہی چھ برس لگادیے کہ ایف بی آئی نے سی آئی اے کے تشدد پروگرام میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے کہا،”وہ ایسی چیزیں بھی چھپا رہے ہیں جو عدالت میں معمول کی کارروائی کا حصہ ہیں۔”