افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں نے دنیا بھر پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ ان حملوں کے بعد افغانستان اور اس کے شہریوں کی معاشرت کو بھی حیران و پریشان کن تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جب بیس برس قبل امریکا میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملے رونما ہوئے تھے تب افغانستان اور اس کے لوگوں کو القاعدہ کا بھی داخلی طور پر سامنا تھا اور اس تنظیم کی موجودگی کسی المیے سے کم نہیں تھی۔
ان حملوں سے صرف دو روز قبل افغان مزاحمت کا نشان سمجھے جانے والے ناردرن آلائنس کے رہنما احمد شاہ مسعود کو القاعدہ کے عسکریت پسدوں نے ایک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ مسعود کا کردار سوویت فوج کشی کے دوران بھی قابل تعریف خیال کیا جاتا تھا۔
نو ستمبر سن 2001 کو احمد شاہ مسعود کو ایک حملے میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے ہلاک کر دیا تھا اور ہھر دو ہی روز بعد یعنی گیارہ ستمبر کو امریکا کے مختلف مقامات پر کمرشل ہوائی جہازوں کے کاک پٹ کا کنٹرول حاصل کر کے دہشت گردوں نے انہیں عمارتوں سے ٹکرا دیا تھا۔ ان حملوں میں تین ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
جب یہ واقعات رونما ہوئے تو افغان شہریوں نے ان کا بظاہر نوٹس شدت کے ساتھ نہیں لیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں امریکا کا ملک افغانستان سے بہت دورہے اور کسی حملے کا کوئی امکان نہیں۔
سابق حکومتی ملازم عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکا پر حملے کی خبریں گیارہ ستمبر کی شام کو سنی تھیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ امریکی ٹھکانوں پر حملے اور اس کی جوابی کارروائیوں کی خبریں آتی رہتی تھی اور اسی انداز میں افغانستان پر ممکنہ امریکی حملے کی خبر بھی سنی مگر پریشان اس لیے نہیں ہوا کہ مجھے احساس تھا کہ ان کا ملک امریکا سے بہت دور ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے وقت افغان شہریوں کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے ملک پر سخت گیر طالبان حکومت کر رہے ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ القاعدہ بھی ان کے ملک ہی میں ڈھیرے ڈالے ہوئے تھی۔ یہی القاعدہ امریکا پر حملوں کی ماسٹر مائنڈ تھی۔
افغان شہر قندھار کے لائبریرین عبد الصمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اخبارات کے اسٹالوں پر لوگوں کو امریکا پر حملوں کی خبریں پڑھتے دیکھا اور کئی لوگ ان پڑھ افراد کو اونچی آواز میں پڑھ کر خبریں سنا رہے تھے۔
عبد الصمد کے مطابق نائن الیون حملوں کی تصاویرشہر کے اخبارات میں دو دن بعد چھپی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تبھی احساس ہو گیا تھا کہ یہ حملے ایک نئی ناقابل قبول صورت حال کا آغاز تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا ان کے ملک پر حملے کے بہانے تلاش کر رہا تھا اور ایک بہانے کو لے کر وہ اس ملک پر قابض ہوا تھا۔
امریکا نے طابان سے کہا کہ القاعدہ تنظیم امریکی حملوں میں ملوث ہے اور اس کے لیڈر اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کیا جائے مگر طالبان نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا طالبان سن 1996 سے افغانستان پر حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔
قندھار کے ایک تالا ساز قیام الدین کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں داخل ہو کر ایک نئی پریشانی اور مصیبت کھڑی کر دی تھی۔ ان کے مطابق جنگ نے طول پکڑا اور طالبان نے پھر سَر اٹھا لیا اور انسانوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ قیام الدین کے مطابق لوگ مہاجرت اختیار کر کے پاکستان اور ایران گئے لیکن پھر بہت سارے واپس لوٹ آئے کیونکہ انہیں وہاں اور شدید مسائل کا سامنا تھا۔
ایک اسکول ٹیچر نور اللہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک میں ٹیلی وژن کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے دیکھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے نائن الیون کی خبریں اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ کر ٹیلی وژن پر دیکھی تھیں۔
نور اللہ کے مطابق انہیں احساس ہو گیا تھا کہ ایک بڑی مصیبت آنے والے ہے لیکن عام لوگوں اور حکمرانوں کو یقین تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نور اللہ نے مزید کہا کہ انجام کار امریکی داخل ہو گئے اور طالبان کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کے زوال سے ایک احساس پیدا ہوا کہ سب لوگ کم از کم آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ اسکول ٹیچر نے بتایا کہ حقیقت میں امریکا ایک غلط مقام پر پھنس کر رہ گیا اور اسے اس میں سے نکلنے میں بیس برس لگے اور طالبان پھر واپس لوٹ آئے۔ نور اللہ کے مطابق پھر سے وہی چہرے اور لوگ اپنے پرانے رویوں کے ساتھ حکومت میں ہیں۔