نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) بیس سال قبل القاعدہ کے دہشت گردوں نے عالمی طاقت امریکا کو للکارا تھا۔ زخمی قوم نےنیویارک War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ کے نتائج سے ساری دنیا طویل عرصے تک نمٹنے کی جدوجہد کرتی رہے گی۔
امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بیس سال مکمل ہو گئے۔ نیویارک کے گراؤنڈ زیرو پر ایک نئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کھڑے کیے جا رہے ہیں ساتھ ہی ان حملوں کے اُن تین ہزار متاثرین کی یادگار بھی تعمیر کی جا رہی ہے جنہوں نے امریکا سمیت تمام دنیا کے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان صدمات سے گزرنے والا شہر نیویارک کافی حد تک سنبھل گیا اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا بھی ہوگیا اور کورونا کی وبا تک اس شہر کی معیشت خوب پھل پھول رہی تھی۔ تاہم امریکا سے لے کر مشرق وسطیٰ کے وسیع تر حصے اور ہندو کش کی ریاست افغانستان تک کچھ بھی پہلے جیسا باقی نہیں رہا۔
حال ہی میں کابل کے ہوائی اڈے پر امریکی فوج کی انخلائی کارروائی کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں قریب 170 افغان باشندے اور ایک درجن سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری ‘ اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔ اسلامک اسٹیٹ یا داعش کا 20 سال قبل کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
جرمن شہر ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والے ایک مؤرخ بیرنڈ گرائنر نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ”ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئی ایس کا عروج 2003ء میں صدام حسین کی حکومت گرنے کا براہ راست نتیجہ تھا۔‘‘ جرمن تاریخ دان نے مزید وضاحت کی کہ داعش کے جنگجوؤں کی پہلی نسل کا ایک بڑا حصہ صدام حسین کی پرانی فوج سے تعلق رکھتا تھا۔ ” صدام کی فوج کو امریکا نے فوراً سے پیشتر ختم کر دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں نوجوان بغیر کسی مستقبل اور روزگار کے امکانات کے سڑکوں پر کھڑے تھے۔‘‘ جرمن ماہر کے بقول یہ صورتحال انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے رجحان کے لیے ‘تراب‘ یا نباتی کھاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
2001 ء میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کر دیا۔ یہ مرکز معاشی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دہشت گردوں نے پینٹا گون پر بھی حملہ کیا۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں نے عوامی جذبات بھڑکا دیے اور امریکی قوم صدمے کا شکار ہو گئی۔ دہشت گردوں نے مسافر طیاروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ تمام دہشت گردانہ کارروائیاں افغانستان میں خیمے میں بیٹھے ایک سعودی باشندے ‘ اسامہ بن لادن‘ کے اشاروں پر ہو رہی تھیں۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت کے لیے یہ بے مثال خجالت اور تذلیل تھی۔ وہ ملک جو سرد جنگ کے درجنوں سالوں بعد اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد شاید اپنی طاقت کے عروج پر تھا، جو خود کو بہت مضبوط، ناقابل تسخیر تصور کرتا تھا۔ امریکا نے مایوسی اور دکھ کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا اور تمام عالمی برادری کی ہمدردی سمیٹ لی جس نے بھرپور غصے کا مظاہرہ اور بدلا لینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ’ہمارے وقار پر اب سمجھوتہ نہیں ہوگا‘
امریکا پولیس ایکشن یا اسپیشل فورسز کے ساتھ ایسی کارروائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا جو دس سال بعد عملی طور پر کر دکھائی گئی۔ یعنی پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہدف بنا کر جتنا بڑا آپریشن عمل میں آیا وہ مثالی تھا۔ اسے پہلی بار مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی تاریخ میں مشترکہ مقدمہ قرار دیا گیا اور اس فوجی کارروائی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس اتحاد نے اپنے مشترکہ دفاع کے طور پر جائز قرار دیا۔ چند ماہ کے اندر افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
2003 ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عراق پر حملہ کر دیا۔ تب تو اس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں رہا تھا۔ صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور آمر عراقی حکمران کی طرف سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے فسق اور جھوٹے تھے۔
امریکا کے بہت سے سیاستدانوں نے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کے بعد یہ سوچا کہ ان کے پاس یہ ایک موقع ہے پوری دنیا کے سامنے اپنی قوت کے مظاہرے کا، یہ ظاہر کرنے کا کہ امریکی ایک ‘ ناگزیر قوم‘ ہے۔ ایک امریکی مؤرخ اسٹیفن ویرتھ ہائم نے ان خیالات کا اظہار ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا،” امریکا کو ایک ناگزیر قوم کی حیثیت سے منوانے کے لیے امریکی سیاستدانوں نے ایک پورے ملک اور خطے کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی کوش کی۔‘‘
جرمن مورخ بیرنڈ گرائنر امریکا کے اس رویے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول، ”امریکا دنیا، خاص طور سے عرب دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ کوئی بھی جو مستقبل میں اس سے اُلجھے گا، وہ اپنی بقا کو داؤ پر لگائے گا۔ جرمن مؤرخ نے اپنے فکری تجزیے کا خلاصہ کچھ یوں پیش کیا، ”دراصل افغانستان اور عراق دونوں میں امریکی کارروائی علامتی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کی اعلان کردہ ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کبھی نا ختم ہونے والی جنگ بن کر رہ گئی۔ ایک ایسی جنگ جس کی نہ وقتی نہ ہی جغرافیائی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یہ بس عالمی سطح پر لڑی جا رہی تھی۔ برلن میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک ایک ماہر ژوہانس تھم کے بقول، ”دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 9 لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ تمام افراد براہ راست جنگ میں مارے گئے۔ ان میں سے قریب چار لاکھ عام شہری تھے۔‘‘
مذکورہ جنگ پر آنے والی لاگت یا تخمینے کے مطابق ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں صرف امریکا کو اربوں ڈالر کی ناقابل تصور قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہر بیرنڈ گرائنر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ، ”پوری دنیا پر اس کے اثرات سے قطع نظر امریکا کو عراق اور افغانستان میں اس دیوانی جنگ سے بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘ اُدھر امریکی مؤرخ اسٹیفن ورتھ ہائم ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں، ”امریکا اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسیع وسائل کو نائن الیون کے حملوں کے تخریبی رد عمل کے بجائے متعدد تعمیری کاموں پر صرف کر سکتا تھا۔‘‘