پنجاب حکومت نے سکولوں میں ڈبہ جوس بوتلولں پر پابندی لگا کر اچھا اقدام کیا ہے کیونکہ اسکی وجہ سے بچوں میں بھی شوگر کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں اس وقت پاکستان میں تقریبا 3 کروڑ سے زائد افراد شوگر کے موذی مرض میں لاحق ہیں اور 3 کروڑ افراد مزید شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے والے ہیں اس سلسلہ میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور ایسوسی ایشن برائے صنفی آگاہی اور انسانی امپاورمنٹ (آگہی) عوام میں اس مرض کے حوالہ سے شعور پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی این جی اوز ہیں جو اس مشن کو لیکر چل رہی ہیں پاکستان میں غریب افراد کے لیے ادویات کا حصول بہت مشکل ہے کیونکہ کرونا کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں معاشی بحران پیدا ہوا ہے وہیں پر پاکستان میں بھی بہت سے لوگ متاثر ہوئے ہیں اس لیے ہمیں خود بھی میٹھے سے اجتناب کرنا چاہیے اور بچوں کو تو مصنوعی جوسز کے قریب بھی نہیں جانے دینا چاہیے گزشتہ روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں شوگر سویٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کے صحت کے نقصانات اور ٹیکس/سرچارج میں اضافہ کی ضرورت پر ایک میڈیا سیشن کا انعقادبھی کیاگیا ہماری ایک دیرینہ صحافی دوست مریم نے مجھے بھی اس شیشن میں مدعو کیا اس بریفنگ میں بہت حیرت انگیز انکشافات سننے کو ملے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) گزشتہ 37 سالوں سے لوگوں کو دل کی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے۔
جو سول سوسائٹی، سیاسی اور میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ مل کرکانفرنسز، ورکشاپس، سیمینارز اور واکس کا اہتمام کررہی ہے پناہ کے ڈائریکٹر آپریشن و جنرل سیکریٹری ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ عام لوگوں کو صحت سے متعلق آگاہی فراہم کرتی ہے، اور ان عوامل کی نشاندہی کرتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں،جن میں شوگر سویٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی)بھی شامل ہیں،جس کا روزانہ اور کثرت سے استعمال ہمیں مہلک بیماریوں جیسے دل، موٹاپا، ذیابیطس، جگر اور گردے کی بیماریوں اور کچھ قسم کے کینسر کی طرف لے جا رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط جنرل سیکرٹری ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ایک سے ڈیڈھ کروڑ بچے موٹاپاکاشکار ہیں،جن کاکم عمری میں ہی ذیابیطس کاشکارہونے کاخدشتہ ہے، پاکستان میں ذیابیطس تیزی سے بڑھ رہا ہے،بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق پاکستان ذیابیطس میں چوتھے نمبر پر ہے،قومی ذیابیطس سروے کے مطابق ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کاشکارہے۔ شوگر سویٹینڈ بیوریجز (ایس ایس بی) پر بڑھتا ہوا ٹیکس اس کی کھپت کو کم کرنے اور ملک کے لیے ممکنہ آمدنی بڑھانے کے لیے ایک مثبت حکمت عملی ثابت ہوگی۔ منور حسین، کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام، گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی نے کہا کہ پاکستان میں غیرمواصلاتی امراض (این سی ڈیز) میں اضافہ ہورہاہے جو ملک میں کل اموات کا تقریبا 58 فیصد حصہ ڈال رہی ہیں،زیادہ چینی کا استعمال موٹاپے اور اس سے متعلقہ این سی ڈی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شوگر سویٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) ٹائپ 2 ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، جگر اور گردے کو نقصان، دل کی بیماری، اور کچھ قسم کے کینسر کے بڑھتے ہوئے شوگر کے اضافے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔شواہد بتاتے ہیں کہ ایس ایس بی کی کھپت میں کمی لاکرزیادہ وزن، موٹاپا اور متعلقہ این سی ڈی کی ریشوکوکم کیاجاسکتاہے،ایس ایس بی پر ٹیکس کانفاذ اس کی کھپت، متعلقہ این سی ڈی کو کم کرنے اور ممکنہ طور پر ملک کی آمدنی میں اضافے کے لیے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر میٹھے مشروبات کے استعمال سے بڑوں کے وزن میں 27 فیصد اور بچوں میں 55 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شناور وسیم علی ایسوسی ایٹ پروفیسر وچیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنسز یونیورسٹی آف پنجاب نے بتایاکہ پاکستان میں 2014-15کے اعدادوشمار کے مطابق 41.3فیصد لوگ میں موٹاپاکاشکارتھے،جن میں بتدریج اضافہ جاری ہے، 50 ممالک پہلے ہی شوگر سویٹینڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کی کھپت کی حوصلہ شکنی کے لیے ٹیکس لگا چکے ہیں این سی ڈی کو روکنے کے لیے شوگر سویٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کی کھپت کو کم کیا جانا چاہیے اس میڈیا سیشن کااگر لب لبا کہا جائے تو یہ ہوگا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی صحت کے تحفظ کے لیے صحت مند فیصلے کرے، لوگوں کی صحت کو خطرے میں ڈالنے والی مصنوعات کی کھپت کے فروغ میں کمی لائے، ہیلتھ لیوی بل پر عمل درآمد کرکے ہم بیماریوں کو کم اور آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ملک بھر کی این جی اوز کو سامنے آنا چاہیے اور عوام کی صحت کے متعلق آگاہی پروگرام کرنے چاہیے اس سلسلہ میں سکولوں،کالجز اور یونیورسٹیوں کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ ہمارا مستقبل توان اداروں کے ساتھ ہی وابسطہ ہے خاص کر منشیات کے حوالہ سے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت اس لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سر گرم ہے اور تمام حکومتی ادارے اس سلسلہ میں عمران خان اور پنجاب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور عوام بھی چاہتی ہے کہ اس لعنت سے جان چھڑوائی جائے کیونکہ یہ اصل امتحان تو غریب عوام کا ہی ہے جن کے پاس اب ڈسپرین خریدنے کی سکت بھی نہیں رہی اگر ہم میٹھی اشیا اور منشیات سے جان چھڑوانے میں کامیاب ہوگئے تو آنے والے دورمیں خوشحالی ہمارا مقدر ہوگی اور بیماریاں ہم سے کوسوں دور بھاگ جائیں گی آخر میں ایک بات کہ پناہ اور آگہی کا ساتھ دیں اور ایسے افراد کی قدر کریں کیونکہ ایسے لوگ بار بار نہیں آتے یہ وہ ہیرے ہیں جنہیں ہم گم کرنے کے بعد تلاش کرتے ہیں مگر وہ پھر نہیں ملتے۔