افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت اور وہاں کے موجودہ حالات کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وہاں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ دریں اثنا ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی ناراضگی، افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔
دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور کابل پر فتح حاصل کرنے کے لیے طالبان کو اکتیس اگست کو مبارک باد دی تھی۔ القاعدہ نے اپنے بیان میں کشمیر، صومالیہ، یمن اور دیگر اسلامی سرزمینوں کو آزادکرانے کی اپیل کی تھی۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ کشمیر، بھارت اور کسی بھی دیگر ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے وہ آواز اٹھائیں۔
القاعدہ اور طالبان کے ان بیانات نے نئی دہلی کے ایوانوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
بھارتی روزنامہ ‘دی ہندو نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان سے ملحق شمالی کشمیر کی سرحد پر اس وقت 40 سے 50 غیر ملکی اور 11مقامی عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ یہ گزشتہ ایک دہائی میں پہلا موقع ہے، جب اس علاقے میں مقامی عسکریت پسندوں کے مقابلے میں غیر ملکی عسکریت پسند زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ کشمیر میں تشدد کی ایک تازہ لہر شروع ہو سکتی ہے۔ وہ پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ جنوبی ایشیا کے انتہائی متنازعہ علاقے کشمیر میں عسکریت پسندی پر ان کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل شیس پال وید نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کر تے ہوئے کہا، افغانستان میں طالبان کے حکومت پر قابض ہونے کے اثرات صرف کشمیر پر ہی نہیں پڑیں گے بلکہ اس سے پورا جنوبی ایشیا متاثر ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا،طالبان کے اقتدار میں آنے کا وادی کشمیر سمیت دنیا بھر میں سرگرم تمام دہشت گرد گروپوں پر ایک نفسیاتی اثر پڑے گا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس پیش رفت سے دہشت گرد گروپوں کا حوصلہ بلند ہوا ہے۔” وید کے مطابق لشکر طیبہ جیسی تنظیموں نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں طالبان کی مدد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کے عوض طالبان بھی ان کی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔
شیس پال وید کا مزید کہنا تھا، افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے تمام دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر دیا۔ ان میں اسلامک اسٹیٹ، لشکر طیبہ اور جیش محمد سے تعلق رکھنے والے بھی کئی دہشت گرد بھی شامل تھے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے تربیتی کیمپوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے افغان علاقوں میں منتقل کر سکتی ہے۔”
جموں وکشمیر پولیس کے سابق سربراہ کے مطابق بے روزگاری بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے نوجوان کشمیری عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔
شیس پال وید نے کہا، جہادی نظریات کی وجہ سے بہت سے لڑکے شدت پسند ہو رہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں میں ہتھیار لینے کا شوق اور جوش بھی انہیں اس جانب مائل کرتا ہے۔ اس سے بے روزگار نوجوان اپنے اندر طاقت محسوس کرتے ہیں۔ وہ خود کو سماج کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔”
کشمیر ی امور کی ماہر وکٹوریا اسکوفیلڈ کی البتہ اس معاملے پر رائے مختلف ہے۔ کشمیر میں جاری تصادم پر گزشتہ پینتیس برس سے تحقیق کرنے والی وکٹوریا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے دوبارہ عروج کے حوالے سے کہا، یہ ایک افغان تحریک ہے اور کشمیر کے حالات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ پرانے دنوں میں آپ کو یہ سننے کو مل جاتا تھا کہ افغان اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے اور جنگ لڑنے کے لیے کشمیر جا رہے ہیں۔ لیکن میں اب ایسا نہیں دیکھتی۔”
دیگر تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو مودی حکومت کی جانب سے ختم کر دیے جانے سے کشمیریوں پر زبردست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل وید کا کہنا تھا، گزشتہ دو برسوں میں تشدد کی سطح کم ہوئی ہے اور بہت کم لڑکے دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں۔”
وکٹوریا اسکوفیلڈ بھی اس خیال سے متفق نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے جس سختی سے حالات کو کنٹرول میں کیا اس کی وجہ سے دفعہ 370 کی منسوخی کے ‘بہت ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے عسکریت پسندی کو ‘بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے تاہم متنبہ کیا کہ نوجوانوں میں بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔