امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے سعودی عرب میں نصب کردہ اپنے جدید ترین میزائل سسٹم نکال لیے اور ساتھ ہی پیٹریاٹ بیٹریاں بھی واپس بلا لی ہیں۔ یہ بات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے بہت سی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد سامنے آئی ہے۔
سعودی عرب میں پرنس سلطان ایئر بیس کے نزدیک نصب ایک امریکی پیٹریاٹ میزائل بیٹری کی گزشتہ برس فروری میں لی گئی تصویر
دبئی سے ہفتہ گیارہ ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب سے امریکا کے انتہائی جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کا یہ انخلا حالیہ ہفتوں میں عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر دیکھی گئی ہے، جب خلیج کے علاقے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی ملک سعودی عرب کو اس کی خانہ جنگی کی شکار ہمسایہ عرب ریاست یمن سے حوثی باغیوں کے مسلسل ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔
سعودی دارالحکومت ریاض سے کچھ دور پرنس سلطان ایئر بیس سے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم اور پیٹریاٹ بیٹریوں کی منتقلی ان دنوں میں عمل میں آئی، جب خلیج کے خطے میں واشنگٹن کے اتحادی دیکھ رہے تھے کہ افغانستان میں بیس سالہ تعیناتی کے بعد امریکی فوجی دستے کتنے بے ہنگم انداز میں ہندو کش کی اس ریاست سے رخصت ہو رہے تھے۔
سعودی دارالحکومت ریاض سے تقریباﹰ 115 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پرنس سلطان ائر بیس پر 2019ء میں اس وقت سے ہزاروں امریکی فوجی بھی تعینات رہے ہیں ، جب یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی اہم ترین تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیوز ایجنسی اے پی نے اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور ایران خطے کے دو بڑے حریف ممالک ہیں اور خلیجی ریاستوں میں ہزار ہا امریکی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ علاقے میں ایران کی عسکری اہمیت کے باعث طاقت کے توازن قائم رکھنا بھی ہے۔
دوسری طرف کئی خلیجی عرب ریاستوں کو مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا سامنا بھی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ علاقے میں مستقبل میں کسی ممکنہ تصادم کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔
امریکی فوج یہ سمجھتی ہے کہ ایشیا میں بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر وہاں امریکی میزائل نظاموں کا ہونا ضروری ہے۔ مگر خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو بے یقینی کا سامنا اس پہلو سے ہے کہ عسکری حوالے سے اس خطے کے لیے واشنگٹن کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا۔
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی سن 2018 کے روز ايران کے ساتھ جوہری ڈيل سے يکطرفہ طور پر دست برداری کا اعلان کيا۔ ايران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے مقصد سے يہ ڈيل چھ عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے مابين سن 2015 ميں طے پائی تھی۔ ايران نے اس اقدام کو ’ناقابل قبول‘ قرار ديا اور ڈيل ميں شامل ديگر پانچ ممالک جرمنی، فرانس، برطانيہ، روس اور چين کے ساتھ بات چيت جاری رکھنے کا کہا۔
رائس یونیورسٹی کے جیمز بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی کے محقق کرسٹیان اُلرکسن کہتے ہیں، ”محسوسات، چاہے ان کی جڑیں حقیقت میں نہ بھی ہوں، ہمیشہ اہم ہوتے ہیں۔ کئی خلیجی ریاستوں کے فیصلہ ساز حلقوں میں پایا جانے والا ایک واضح احساس یہ بھی ہے کہ امریکا کو اب اس خطے کی اتنی زیادہ فکر نہیں رہی، جتنی پہلے ہوا کرتی تھی اور نہ ہی واشنگٹن اب اس حوالے سے ماضی کی طرح پرعزم ہے۔‘‘
کرسٹیان اُلرکسن کے بقول سعودی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان کی رائے میں امریکا کے مسلسل تین صدور، باراک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور اب جو بائیڈن نے متواتر ایسے فیصلے کیے ہیں، جن کی وجہ سے ریاض حکومت کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ جیسے اسے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہو۔
پاکستانی بلیسٹک میزائل پروگرام کم فاصلے سے لے کر درمیانے فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائلوں سے لیس ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جب اس نے سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد فوج کا موقف جاننے کے لیے امریکی محکمہ دفاع سے رابطہ کیا، تو پینٹاگون کے ترجمان جان کِربی نے اعتراف کیا کہ فضائی دفاع سے متعلق مخصوص عسکری اثاثوں کی نئی تعیناتی عمل میں آئی ہے۔
تاہم ساتھ ہی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کے حوالے سے اپنے عزائم پر قائم ہے اور ‘وسیع تر اور گہری ذمے داری‘ سے کام لے رہا ہے۔
جان کِربی کے مطابق، ”امریکی محکمہ دفاع کے بیسیوں ہزار فوجی اب بھی مشرق وسطیٰ میں تعینات ہیں اور ساتھ ہی وہاں فضائی دفاعی اور بحری عسکری صلاحیتوں کے حامل ایسے امریکی اثاثے بھی موجود ہیں، جن کا مقصد خطے میں امریکا کے قومی اور اس کے علاقائی پارٹنرز کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔‘‘