اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کی سپریم کورٹ نے وکلا کی جعلی ڈگریوں اور قانون کی تعلیم کی بہتری کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اشارہ دیا ہے اوراس سلسلےمیں ارکان کمیٹی کے نام بھی طلب کیے ہیں۔ ملک کی وکلا برادری نے اس عدالتی اشارے کا خیر مقدم کیا ہے۔
منگل کو جعلی ڈگریوں اور لا کالجز میں معیار تعلیم کے حوالے سے ایک از خود مقدمے کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت جعلی ڈگریوں کے مسئلہ کو حل کرنا چاہتی ہے، جس کا مقصد وکلا کے معیار تعلیم کو بہتر بنانا ہے۔ اس موقع پر امیر علی شاہ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کئی وکلا کی ڈگریاں جعلی ہیں اور یہ کہ اس کی تفتیش کے لیے ایک مشترکہ تفتیشی کمیٹی بنائی جائے۔
ملک کی وکلا برادری نے اس اشارے کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں وکلا کی طرف سے کئی معاملات میں مبینہ طور پر تشدد کا استعمال کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کئی حلقوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا قانون کے ان رکھوالوں نے قانون پڑھا بھی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے اس عدالتی اشارے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اگر سپریم کورٹ کو یہ خدشہ ہے یا یہ شک ہے کہ کسی وکیل کی ڈگری جعلی ہے تو اس کی بالکل جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح کی اطلاعات ماضی میں آتی رہی ہیں کہ کچھ وکلا کی ڈگریاں جعلی نکلی ہیں۔ یہاں تک کہ پنجاب بار کونسل کے ایک سینئر وائس چیئرمین کے حوالے سے بھی اس طرح کی اطلاعات آئیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی وکیل کی ڈگری جعلی نکلے تو اس کو سزا بھی دی جانی چاہیے اور اس کا لائسنس بھی کینسل کیا جانا چاہیے۔
لطیف آفریدی کے بقول کوئی بھی شخص قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ ”یہ افسوسناک بات ہے کہ پنجاب بار کونسل میں ایک شخص اتنے اونچے عہدے تک پہنچ گیا اور بعد میں اس کی ڈگری پر سوال اٹھے۔ اگر میڈیکل اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ڈگریاں چیک ہوسکتی ہیں، تو وکلا کی کیوں نہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ” لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف وکلا کی ڈگریاں کیوں چیک کی جائیں۔ جب ملک میں اس طرح کا قانون بنایا گیا تو سب سے پہلے عوامی نمائندے تھے، جنہوں نے جعلی ڈگری حاصل کی اور ایک وزیر اعلی نے تو یہاں تک کہا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی ہو۔ تو نہ صرف وکلا کی ڈگریاں چیک ہونی چاہیے بلکہ افسر شاہی کے لوگوں اور دوسرے سرکاری ملازمین کی ڈگریاں بھی چیک ہونی چاہیے۔‘‘
تاہم پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈوکیٹ نے اس طرح کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کیا جس کے تحت وکلا کی تعلیمی اسناد چیک کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اگر کسی وکیل کی تعلیمی اسناد پر کسی کو کوئی شک ہے تو وہ متعلقہ بار کونسل سے رابطہ کر سکتا ہے۔ بار کونسل کی انظباطی کمیٹی ہوتی ہے، جو اس وکیل کے خلاف اقدام اٹھا سکتی ہے۔ لیکن اس طرح تمام وکیلوں کی ڈگریاں چیک کرنے کا اشارہ وکیلوں کو بد نام کرنے کے مترادف ہے۔ آج وکیلوں کی ڈگریاں چیک کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، تو کل کہا جائے گا کہ ججوں کی بھی ڈگریاں چیک کی جائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں وکلا کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ ”ایسے میں انتظامی طور پر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ یہ ساری ڈگریاں چیک کرلیں۔‘‘ لطیف آفریدی انتظامی مشکلات کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب بار کونسل سے اس کے وقت کے حوالے سے پوچھا تو ان کو بتایا گیا کہ ایک ڈگری چیک کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت لگتا ہے جبکہ فی ڈگری ہزاروں روپیہ بھی چارج کیا جاتا ہے۔ ”تو اگر سارے وکیلوں کی ڈگریاں چیک کرائیں گی تو اس میں بہت سارا وقت بھی لگے گا اور اس میں خطیر رقم بھی درکار ہوگی لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ ایسا ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ قانون کی تعلیم انحطاط کا شکار ہے اور ملک میں لا کالجز کی بھر مار ہوگئی ہے، جو صرف پیسے کما رہے ہیں۔ تاہم کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان ریاض حسین بلوچ کا کہنا ھے کہ قانون کی تعلیم کے لیے بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اب ایچ ای سی لا کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹ لیتی ہے۔ امیدواروں کی ڈگریوں متعلقہ بورڈز سے چیک کروائی جاتی ہیں اور ڈگری مکمل کرنے کے بعد بھی وکلا کو مزید ٹیسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈگری کورسز کا دروانیہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔‘‘