کابل (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق اور مہاجرین کی بہبود کے گروپوں نے یورپی یونین پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس نے طالبان سے بچنے کے لیے افغانستان سے نکلنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کی مناسب مدد نہیں کی۔
طالبان نے 15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کیا تھا جس کے بعد قریب ایک لاکھ سے زائد افراد کو افراتفری کی کیفیت میں کابل سے نکالا گیا۔ تاہم اب بھی ہزاروں ایسے افغان ہیں جو اپنے ملک سے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔
جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کے خاتمے سے قبل وہاں کے شہریوں کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد رواں برس جولائی میں 7,300 تھی۔ یہ تعداد جون کے مقابلے میں 21 فیصد زائد تھی اور مسلسل پانچواں ماہ تھا جب افغان شہریوں کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس رپورٹ میں تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان باشندوں کی طرف سے جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے نصف سے زائد کو رد کر دیا گیا۔
24 غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے، جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، کاریتاس یورپ، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی، آکسفیم اور ریڈ کراس بھی شامل ہیں، جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ”یورپی یونین کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانے میں کمی کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرنا چاہیے۔‘‘
اس گروپ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں 18 ملین افراد کو انسانی بنیادوں پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔ یہ افغانستان کی مجموعی آبادی کا قریب نصف بنتا ہے۔ چھ لاکھ 30 ہزار افراد تشدد یا پھر خشک سالی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
یورپی یونین کی طرف سے اس معاملے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم یورپی یونین کے اعلٰی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کے باوجود افغانستان سے ہزاروں باشندوں کی یورپی یونین آمد کا فوری طور پر کوئی خدشہ موجود نہیں۔ افغانستان سے نکلنے والے زیادہ تر افغان باشندے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ تاجکستان میں بھی موجود ہیں۔
اس کے باوجود بعض یورپی حکومتوں کی طرف سے اس بات پر شدید تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ 2015ء کی طرح کہیں ایک بار پھر بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن یورپ کا رُخ نہ کر لیں۔ اُس وقت ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن مختلف یورپی ممالک میں پہنچے تھے، اور یہ صورتحال یورپ میں کئی سیاسی تنازعات پیدا کرنے کا بھی سبب بنی تھی۔
24 غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری ہونے والے بیان میں یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ اپنے تحفظ کے لیے افغانستان سے نکلنے کی کوشش میں مصروف افغانوں کو محفوظ راستہ مہیا کیا جائے اور ایران اور پاکستان میں پناہ لیے ہوئے اس افغانوں کو یورپ میں لا کر بسانے کا پروگرام شروع کرنا چاہیے۔