جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں تعینات جرمن سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے مستقبل، خوشحالی اور سلامتی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے افغان شہریوں کے انخلاء میں مدد فراہم کرنے پر پاکستان کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
جرمن سفیر بیرنہارڈ شلاگ ہیک کا کہنا تھا کہ جرمنی ‘دوحہ مذاکرات‘ میں پاکستان کے کردار کو سراہتا ہے، جس کے ذریعے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرمنی کی درخواست پر اپنی سرحد کے ذریعے افغان شہریوں کو محفوظ حالت میں پاکستان پہنچانے میں پاکستانی حکومت کافی مدد گار ثابت ہوئی۔ ریڈیو پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے شلاگ ہیک کا کہنا تھا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن اور استحکام ان کے مفادات کے لیے اہم ہے۔
شلاگ ہیک کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اور انسانی بحران حقیقت ہیں لیکن اس ملک میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہے اور وہ افغانستان سے بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ لیکن برلن طالبان کی جانب سے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی فراہمی اور ایک کثیر النسلی حکومت کے قیام کا جائزہ لیتا رہے گا۔
افغانستان میں انسانی امداد کی ایک حالیہ کانفرنس میں جرمنی کی جانب سے ایک سو ملین یورو مالیت کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق جرمن سفیر نے کہا کہ جرمنی مزید پانچ سو ملین یورو کی امددا فراہم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کر رہا ہے۔
طالبان کے صوبائی ترجمان مطیع اللہ روحانی کا کہنا ہے کہ جرمنی سمیت عالمی برادری افغانستان میں امداد ملک کے تعمیراتی منصوبوں کی صورت یا پھر کسی اور صورت میں بھی دے سکتی ہے۔ روحانی نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان نے آٹھ اگست کو قندوز پر قبضہ کیا تھا اور اگست کے آخر میں امریکا کے تمام فوجی ملک سے انخلاء کر گئے تھے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح کام کیا جائے؟ انیس سو نوے کی دہائی میں طالبان نے اپنی سابقہ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور ان کے گھروں سے باہر کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اب طالبان کی جانب سے یہ وعدے کیے گئے تھے کہ وہ ایک اعتدال پسند حکومت قائم کریں گے۔ تاہم حال ہی میں احتجاج کرنے والی خواتین اور صحافیوں پر تشدد اور وزارت خواتین کو ختم کر دینے جیسے اقدامات کے باعث انہیں عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کو بھی مایوسی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس عبوری حکومت میں نہ خواتین کی نمائندگی ہے اور نہ ہی افغانستان کے مختلف نسلی اور اقلیتی گروہوں کی۔ طالبان کی اکثریت پشتون نسل ہے، جو کہ افغانستان کی نصف آبادی سے بھی کم ہے۔