قوموں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ہر قوم اس کے مطابق اپنی خارجہ پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں۔ پاکستان افغانستان دو مسلمان پڑوسی ملک ہیں۔ اس کے مفادات آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو اپنی خارجہ پالیسی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق بناناچاہیے۔ افغانستان کے ہزاروں شہری روزانہ پاکستان آتے ہیں کاروبار کرتے ہیں ۔ افغانستان کی ساری تجارت پاکستان سے منسلک ہے۔روس کے ساتھ جنگ کے دوران لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ قوم پرستوں کو چھوڑ کرپاکستانی حکومت اور اسلام سے محبت کرنے والے پاکستانی شہریوں نے مسلمان ہونے کے ناطے انہیں خوش آمدید کہا۔ ان کے دکھوں ، خموں مصیبتوں میں شریک ہوئے کہ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔
افغان پہلے روس اور بھارت کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ روس نے افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک آنا تھا۔ بھارت افغانستان سے ہمیشہ خوف زدہ رہا۔ اس کی منفی سوچ ہے کہ اگر افغانستان میں اسلام نے جڑیں مضبوط کیں تو پہلے کے مسلمان حکمرانوں کی طرح جدید دور کے افغان مسلمان حکمران بھی ہندوستان پر چڑھ دوڑیں گے۔ چناچہ دونوں نے مل کر پاکستان بننے کے بہت پہلے افغانستان کوکیمونسٹ ،قوم پرست، روشن خیال اور لبرل بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگائی۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان میں تحریک پاکستان چلائی اور ان کی جمہوری اور پر امن جد وجہد سے پاکستان وجود میں آگیا تو اُس وقت کی کیمونسٹ اور قوم پرست افغان حکومت نے روس اور بھارت کی ایما پر پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔اس میں سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کی قوم پرست پارٹی پیش پیش تھی۔گو کہ قائد اعظم نے اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختومخواہ میں سرحدی گاندھی کو ریفرینڈم میں شکست فاش دے تھی۔
روس نے پہلے ترکی سے سینکیاک چین تک کے علاقے عثمانی خلافت سے چھینے اور افغانستان کی سمت دریائے آموں تک اپنے سرحد پہنچا دی۔ افغانستان میں کیمونزم کو پھیلایا۔پھر گرم پانیوں تک پہنچنے کے اپنے عزاہم کوپورے کرنے کے لیے اپنے پٹھو ببرک کارمل کو روسی ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغانیوں نے دو سال تک روسیوں اسلحہ چھین کر اور درے کی بندوکوں سے مقابلہ شروع کیا۔ پھر دو سال بعد سرد جنگ کا حلیف امریکا بھی جنگ میں اپنے مفادات کے لیے کود پڑا۔ بلا آخر امریکا کے اسٹنگرمیزائلوں نے اپنا کام دیکھایا۔ مجائدین کندھے پر اسٹنگر میزائل رکھ کر فائر کرتے اور روس کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے گراتے گئے۔ اس کے ساتھ پوری مسلم دنیا سے مجائد افغانیوں کی مدد کے لیے پہنچنا شروع ہوئے۔ جہاد کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے روسیوں کو شکست دی۔ قوم پرست روس کے پٹھو جو پاکستانیوں کو ڈرایا کرتے تھے کہ روس جہاں ایک دفعہ داخل ہوا وہاں سے کبھی بھی نہیں نکلا۔ مگرافغانستان سے جہاد کی برکت سے روس شکست سے دوچار ہو کر افغانستان سے نکل گیا۔ مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستیں آزاد ہوئیں ۔ جرمنی کی دیوار برلن ٹوٹی۔ مشرقی اور مغربی جرمن ایک ہوئیں۔ چھ اسلامی ریاستیں آزاد ہوئیں،قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔سرخ ریچھ جس نے مسلمانوں پر ظلم ڈھا کر ترکی سے سینکیاک کے علاقے سلطنت عثمانیہ سے چھینے تھے وہ آزاد ہو گئے۔اس طرح سرد جنگ کا خاتمہ ہوا ۔
مسلمانوں نے امریکا بہادر کو نیو ورلڈ آڈربننے میں مددفراہم کی بلکہ مسلمانون کیوجہ سے اس منصب پر فائزہوا۔ ا مریکا نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور دنیا کے مسلمان پٹھوحکمرانوں کے ساتھ مل کر نو جہادی فاتحین کو افغانستان میںاپنی مرضی کی اسلامی حکومت قائم نہیں کرنے دی۔افغانستان میں خانہ جنگی کرائی۔اللہ کا کرنا کہ قندھار کے ایک مدرسہ سے ملا عمر نے چند ساتھیوں کو جمع کیا اور ملک میں خانہ جنگی ختم کرنانے کی کوششیں شروع کیں۔ملا عمر کامیاب ہوئے۔ وارڈ لارڈ سے اسلحہ واپس لے کر حکومت کے اسلحہ خانے میں جمع کروایا۔ پوسٹ کی کاشست ختم کی ۔ملک میں امن امان قائم کیا۔ عوام نے ملا عمر کو امیر مومنین تسلیم کر لیا۔ اس طرح افغانستان میں پہلی امارت اسلامی افغانستان کا قیام عمل میں آیا۔امریکا نے شیخ اُسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان کی امارت اسلامیہ کو اپنے اڑتالیس نیٹو صلیبی اتحادیوں اور پاکستان کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی مدد، یعنی لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کے بحری، بری اور فضائی راستے امریکا نے حاصل کیے۔ امریکا نے اس مدد سے افغان طالبان کی جائزامارت اسلامیہ کو ختم کر دیا۔ صلیبیوں نے افغانستان کے مسلمانوں پر ہر قسم کا جدیداسلحہ استعمال کیا۔جدید میزئلوں، ڈیزرکٹر بم، کارپٹڈ بمباری، حیاتاتی اسلحہ،ٹینکوں اور دنیا کا سب سے بڑا بم ،جسے مدر آف بمز کا نام دیاہوا ہے استعمال
کیا۔ پورے افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ ظالموں نے جیلوں خاص کر گوانتے موبے جیل میںطالبان کے ساتھ وہ سلوک کیا جس میں انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔پھر امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات کی بھیک مانگی۔ پاکستان نے طالبان کوجنگ بندی پر راضی کیا۔اللہ نے فاقہ مست افغان طالبان کو جہاد کی برکت سے ان ظالموں پر فتح دی۔ دوحہ امن معاہدے کے تحت ١کتیس اگست دو ہزار اکیس کو سارے امریکی افغانستان سے نکل گئے۔ افغان طلبان نے پورے افغانستان کے نمایدنوں پر عبوری حکومت بنا دی ۔
اسلامی آئین بنانے کے لیے کے نکات کا اعلان بھی کر دیا۔افغانستان میں نیکی کا حکم اور برائیوں سے روکنے کی وزارت بھی قائم کر دی۔اب پھر پہلے والی سازش شروع ہوگئی۔کہا گیا کہ افغان طالبان افگانستان میں براڈ بیس بڑاڈ بیس حکومت قائم کریں ورنہ امریکا اور اس کے اتحادی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پہلے دفعہ نواز شریف کو استعمال کیا گیا تھا کہ اگر افغانستان میں طالبان نے اسلامی حکومت قائم کر دی تو پاکستان کے عوام بھی طالبان جیسی اسلامی حکومت کا مطالبہ کریں گے۔ اس طرح پاکستانی حکمرانوں کے اللے تللے قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اب مدینہ کی اسلامی ریاست کے عمران خان کو ٹریپ کیا گیا ہے۔ وہ طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں کہ طالبان تاجک، ہزارہ اور ازک بردری کو افغان حکومت میں شمولیت کو یقینی بنائیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ دوشمبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنمائوں سے ملاقتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولتی حکومت کی خاطر تاجک ،ہزارہ اور ازبک برداری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔اس سے قبل عمران خان نے افغانستان میں تاجک برداری اور پشتونوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی کوششوںکے سلسلے میں عمران خان نے تاجک صدر کو یقین دھانی کرائی تھی۔ عمران خان نے روسی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایاکہ افغانستان کو تسلیم کرنے کے میکینزم پر پڑوسی ممالک سے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
صاحبو! یہ سب شیطانی چالیں ہیں۔ عمران خان کو اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیدھے سادھے طریقہ سے سب سے پہلے افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنا چاہیے۔تسلیم کرنے کے بعد دوسرے ملکوں کو تسلیم کرانے کی کوششیں شروع کرنی چاہیے۔ افغان قوم غیرت منداور دوست نواز ہے ۔ وہ پاکستان کے اس عمل کے نتیجہ میں پاکستان کے ہمیشہ پشتی بان بن جائیں گے۔ تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔ ایک وقت تھا کہ روس اور بھارت کی ایما پر قوم پرست افغانستان نے پاکستان بننے پر اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب افغانستان کی امارت اسلامی کو مدینہ کی سلامی ریاست والے ، کبھی طالبان خان کہلانے نے والے عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے تسلیم کر لیا۔اس عمل سے خطے کی سیاست کا رخ اسلام کے حق میں تبدیل ہو جائے گا۔ عمران خان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ لہٰذا عمران خان کو فوراً طالبان کی اسلامی امارت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔