امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے واضح کیا ہے کہ فرانس کے غیظ وغضب کے باوجود امریکا کا آسٹریلیا سے طے شدہ آبدوز معاہدے سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جین ساکی نے کہا کہ ’’ صدر جو بائیڈن امریکا کے فیصلے پر پیرس کے خدشات کو دورکرنے کے لیے جلد ہی اپنے فرانسیسی ہم منصب عمانوایل ماکرون سے ٹیلی فون پربات کریں گے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ’’ہم صدر بائیڈن کی آیندہ دنوں میں صدر ماکرون کے ساتھ فون کال کے شیڈول پر کام کر رہے ہیں۔ میں توقع کرتی ہوں کہ صدر اس کال میں جو کچھ کہیں گے،اس میں المی برادری کو درپیش متعدد چیلنجوں پر ہمارے سب سے دیرینہ اور قریبی شراکت داروں میں سے ایک ملک کے ساتھ مل کرکام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’صدر بائیڈن یقیناً حالیہ پیش رفت پرتبادلہ خیال کریں گے بحرہند اور بحرالکاہل میں ہماری مشترکہ دلچسپی ہے۔‘‘
دوسری جانب فرانس نے آبدوزوں کے معاہدے کو ختم کرنے کے ردعمل میں آسٹریلیا اور یورپی یونین کے درمیان آزادانہ تجارت کے لیے مذاکرات روکنے کی دھمکی دی ہے۔
فرانس کے یورپی امور کے وزیرکلیمنٹ بیون نے جریدے پولیٹیکو کو بتایا:’’اپنی بات پرعمل کرنا جمہوریتوں اور اتحادیوں کے درمیان اعتماد کی شرط ہے۔ لہٰذا اس صورت حال میں توتجارتی مذاکرات پرآگے بڑھنے کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا جیسے کسی ایسے ملک کے ساتھ کچھ ہو ہی نہیں،جس پراب ہمیں بالکل بھروسا نہیں رہا ہے۔‘‘
آسٹریلیا اوریورپی یونین کے حکام کے درمیان 12اکتوبر کوتجارتی معاہدے پرمذاکرات کا اگلا دور ہوگا۔اگرچہ یورپی کمیشن کویورپی یونین کےتمام 27 رکن ممالک کی جانب سے تجارتی مذاکرات کااختیار حاصل ہے لیکن وہ فرانسیسی مخالفت کے علی الرغم کسی معاہدے کے ساتھ کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یورپی پارلیمان کی تجارتی کمیٹی کے چیئرمین برنڈ لانگے نے ایک بریفنگ میں کہا:’’میرا خیال ہے کہ اس سے آسٹریلیا کے ساتھ مذاکرات رُکیں گے تو نہیں بلکہ یہ بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائیں گے۔‘‘
امریکا اوربرطانیہ نے 15ستمبر کوایک نئے ’ہند بحرالکاہل سکیورٹی اتحاد‘ کا اعلان کیا تھا۔اس ڈیل کے تحت آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے لیس آبدوزیں مہیا کی جائیں گی۔اس ڈیل کوخطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کا مقابلہ کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جارہاہے۔
امریکا اور برطانیہ سے سودا طے پانے کے بعد آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ 12 روایتی ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں تیارکرنے کا معاہدہ ختم کردیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کا یہ معاہدہ 2016ء میں طے پایاتھا۔
اس پر فرانس نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔اس نے امریکا پراس معاملے میں ’ملی بھگت‘اور آسٹریلیا پر’دھوکا دہی‘الزام عاید کیا اورکہا کہ ان کی اس نئی ڈیل سے مغربی اتحادوں کے مراکز میں ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔
فرانس نے امریکا اور آسٹریلیا میں متعیّن اپنے سفیروں کو بھی مشاورت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔تاریخ میں یہ پہلاموقع ہےجب فرانس نے واشنگٹن سے اپنے سفیر کوواپس بلایاہے۔
برسلز میں یورپی یونین کے صدردفاتر میں متعیّن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ 27 ارکان پر مشتمل تنظیم اس تنازع میں فرانس کی حمایت کرتی ہے لیکن اب تک یورپی ممالک کے سفیروں نے فرانس کے امریکا،آسٹریلیا مخالف انتہائی جارحانہ بیانات کی عوامی حمایت سے گریزکیا ہے۔