کراچی میں کیمروں کی ضرورت اور سیف سٹی پراجیکٹ کا حال

Karachi

Karachi

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور پورٹ سٹی ہونے کے سبب معیشت کا مرکز بھی ہے، کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں مقامی، مختلف شہروں اور بیرون ملک سے آنے والے جرائم پیشہ افراد کا ایسا غول بھی شامل ہے جو ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، اسمگلنگ، منشیات فروشی، اسٹریٹ کرائم اور قتل و غارت سمیت ہر طرح کے جرائم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

پھر سب سے بڑھ کر افغانستان اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال ہے جو پاکستان دشمنوں کو کسی بھی اقدام پر مائل کرسکتی ہے، ایسے میں سیف سٹی پراجیکٹ کی تکمیل اور اسمارٹ پولیسنگ پہلے سے زیادہ ضروری ہوگئی ہے۔

عالمی سطح پر اسمارٹ پولیسنگ اور سیف سٹی پراجیکٹ کی بدولت حل کیے گئے مثالی کیسز کا جائزہ پیش کریں تو لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایک بڑی مثال ہے۔

یہ کیس حل کرنے کیلئے کئی لاکھ فون کالز کا جائزہ لینے کے علاوہ شہر میں نصب کیمروں سے حاصل کردہ فوٹیجز کو کئی ماہ تک باریک بینی سے جانچا گیا، پھر ایک عینی شاہد کی نشاندہی پر ملزمان کا سراغ لگایا گیا، پھر قتل میں استعمال کی گئی چھری اور اینٹ برآمد کی گئی، اس کے بعد اینٹ پر گرنے والے ملزمان کے پسینے کا ڈی این اے حاصل کیا گیا اور پھر خاکہ تیار کرکے فرار ملزمان کی نہ صرف نشاندہی کی گئی بلکہ انہیں پاکستان میں گرفتار بھی کروایا گیا۔

بڑے شہروں کی سکیورٹی سے متعلق اقوام متحدہ نے جو معیار سیٹ کیا اُس کے مطابق 450 افراد کے لیے ایک پولیس اہلکار لازمی ہے، اگر کراچی کی متنازع مردم شماری کو درست مانیں، تو اس کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ افراد ہے جبکہ شہر بھر میں25 ہزار اہلکار ہیں جن میں اگر آپریشن کوالگ کردیا جائے تو یہ تعداد 15سے 18ہزار رہ جاتی ہے۔

یوں کراچی میں یہ شرح تقریباً 900 شہریوں کے لیے ایک پولیس اہلکار بنتی ہے ،یعنی ایک طرف پولیس کی نفری نہ ہونے کے برابر ، تو دوسری طرف شہر سیف سٹی پروجیکٹ سےبھی محروم ہے۔

کراچی میں کیمروں کی ضرورت سب سے پہلے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے بعد محسوس کی گئی ،ڈینیئل کو پی آئی ڈی سی سگنل سے اغوا کر کے گلشن معمار کے کمپاؤنڈ میں قتل کیا گیا مگر تفتیش کاروں کو یہ بات اُس وقت پتا چلی جب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

حکام کے مطابق سب سے پہلے کیمرے ڈی ایچ اے اتھارٹی نے لگائے پھر شہری حکومت نے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کےنام سے کیمروں پر مشتمل سسٹم بنایا، تیسری دفعہ یہ کام سندھ حکومت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے کیا مگر یہ تمام سیٹ اپ شہر میں سکیورٹی اور نگرانی کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہے۔

حکام بتاتے ہیں کہ ان تمام کیمروں میں ٹیکنیکل سہولیات، تعداد اور کوالٹی سمیت کوئی بھی چیز ایسی نہ تھی جو کیسز حل کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔

کراچی بدامنی پر سپریم کورٹ نے 2016میں سیف سٹی پروجیکٹ شروع کرنے کا حکم دیا تھا جس پر سندھ حکومت نےدسمبر 2016 میں اس منصوبے کی منظوری دی اور اس سلسلے میں ابتدائی طور پر 6کروڑ روپے مختص کیےگئے۔

2017 میں اس منصوبے کےلیے گلوبل کنسلٹنسی کو ہائر کیا گیا تاہم یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا، دسمبر 2020 میں سندھ حکومت نے 29ارب روپے میں اس منصوبے کے لیے این آر ٹی سی یعنی نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کے ساتھ ایم او یو سائن کیا۔

پہلے فیز میں اس منصوبے کے لیے 6 ارب روپے مختص کیےگئے ہیں، جس کے بعد اس کا پی سی وی تیار کیا جارہا ہے اور کنسلٹنسی بھی جاری ہے اور اگر منصوبے کے تحت سب کچھ ٹھیک چلا تو دسمبر 2024 میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا جو کہ دراصل 6 سال قبل یعنی 2018میں مکمل ہونا تھا۔

اگر اس وقت شہر میں موجود کیمروں کی بات کی جائے تو شہر کے 484 مقامات پر 2265 کیمرے نصب ہیں جن میں سے فنکشنل 2194 ہیں، اس وقت کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر اور سوک سینٹر کے 280 مقامات پر 1306کیمرے موجود ہیں جن میں 1263فکنشنل ہیں دیگر 43 ترقیاتی کاموں کے باعث غیر متحرک ہیں۔

ٹریفک منیجمنٹ سسٹم کے 40 مقامات پر 193کیمرے ہیں جن میں سے 185کام کر رہے ہیں جبکہ باقی 8 ترقیاتی کاموں کے باعث خراب ہوچکے ہیں۔

سینٹرل پولیس آفس میں قائم کنٹرول روم کے شہر کے 164مقامات پر 766 کیمرے نصب ہیں جن میں سے 746کام کر رہے ہیں جبکہ باقی 20سڑکوں کی تعمیر کے باعث خراب ہوچکے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اس منصوبے کےلیے سیف سٹی اتھارٹی قائم کردی ہے جس کے چیئرمین وہ خودہیں جبکہ وائس چیئرمین صوبائی وزیر تیمور تالپور اور سیکرٹری سندھ پولیس کے سینیئر افسر مقدس حیدر کو بنایا گیا۔

اس بار سیف سٹی پروجیکٹ کو این آر ٹی سی کے حوالے کیا گیا ہے کہ وہ شہر میں جدید سسٹم کا قیام عمل میں لائیں جس میں ہائی ریزولوشن کیمرے اور چہرہ شناخت کرنے کا سافٹ ویئر، کیمرا ریڈایبل نمبر پلیٹس، ویڈیو منیجمنٹ، ٹریفک منیجمنٹ اور ای چالان کےلیے انٹیلی جنٹ ٹریفک منیجمنٹ کے فیچرز شامل ہیں، یہ تمام فیچرز عالمی معیار کے ہیں۔

مجوزہ سیف سٹی پروجیکٹ کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہائی ریزولوشن کیمرے ہیں جن کی تعداد 10ہزار کے قریب بتائی گئی ہے۔ ان میں سے 8 ہزار 12 میگا پکسل اور تقریباً 2 ہزار اسٹیٹک ہیں،جن کے بارے میں اتھارٹی کے وائس چیئرمین اورصوبائی وزیر تیمور تالپور کا بتانا ہےکہ تقریباً 1700 کلو میٹر فائبر آپٹک کیبلز بچھائی جائیں گی اور پولز لگا کر سینٹرل پولیس آفس میں اس کا مرکزی کنٹرول روم بنایا جائے گا۔

اس کے علاوہ تینوں زونل آفسز میں سب آفسز بھی بنائے جائیں گے۔

اس فیچر کا اہم جز ہے چہرے کی شناخت ، اس کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس تک ہمہ وقت رسائی بھی اس سافٹ ویئر کی کامیابی کےلیے اہم ہے۔