میں خوشگوار حیرت سے انسان دوستی کا روح پرور منظر دیکھ رہا تھا مادیت پرستی کا طلسم ہو شربا جو انسانی اقدار اور انسان دوستی کو نگل چکا ہے یہاں تک کہ ہر انسان ایک مادی جانور بن کر دولت کے پیچھے اس طرح اندھا دھند دوڑ رہا ہے کہ اُس کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی بلکل بھی پرواہ نہیں ہے ۔خدمت خلق ‘دوسروں کا درد محسوس کر نا یہ تو ماضی کے قصے ہو کر رہ گئے لیکن یہاں پر ایک چھوٹا سا پر چون فروش جس کی روزانہ کی سیل ہزاروں میںہوگی وہ خدمت خلق کی مشعل روشن کئے ہوئے تھا وطن عزیز کے دولت مند اپنی امارت کا اشتہار چلانے کے لیے اکثر لنگر خانوں کا اہتمام کرتے ہیں یا مخصوص دنوں میں راشن آٹے کے پیکٹ بھی تقسیم کرتے نظر آتے ہیں لیکن تھوڑے وسائل کے ساتھ انسانوں کا درد محسوس کرنے والے ماضی کا حصہ بن گئے ہیں نفسا نفسی کے اِس دور میںجب کوئی انسان دوست نظر آتا ہے تو یقینا خوشگوار حیرت سے واسطہ پڑتا ہے۔
اِسی سرشاری خوشی کو محسوس کر رہا تھا چند دن پہلے میرا ایک جاننے والا میرے پاس آیا اور بولا آپ اپنی تحریروں میں اکثر اچھے انسانوں کا ذکر کر تے ہیں میں بھی ایسے ہی خدمت خلق کے مسافر کو جانتا ہوں جو بہت امیر کبیر فیکٹریوں کا مالک نہیں ہے جس کی کمائی ہزاروں میں ہے لیکن وہ درد دل رکھنے والا غریبوں بھوکوں کی مدد کرنے والا ہے جب آپ کے پاس ٹائم ہو تو آپ میرے ساتھ چلیں اور جا کر اپنی آنکھوں سے عام انسان کو خدمت خلق کرتے ہوئے دیکھیں گے تو میں آج اپنے دوست کے ساتھ چھوٹے سے محلے کی چھوٹی سی پرچون کی دوکان پر آکر کھڑا تھا دوکان دار نے لکھ کر لگایا ہو ا تھا یہاں پر ضرورت مندوں کو مفت روٹی دی جاتی ہے دائیں بائیں سے مزدور کوڑا اٹھانے والے آرہے تھے کہ روٹی چاہئے دوکاندار پیار محبت سے آنے والے کی روٹیوں کی ڈیمانڈ کے مطابق اُس کو پرچی بنا کر دے رہا تھا کہ سامنے تندور سے جا کر روٹیاں لے لو دوپہر کا وقت تھا مزدور اور بھوکے لوگ تندور سے گرما گرم روٹیاں لیتے پانی کیساتھ گھر سے لائے سالن یا اچار وغیرہ سے بیٹھ کر خوب مزے سے پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے۔
اِسی دوران کچھ لوگ روٹیاں لے کر دوکاندار کے پاس آئے تو دوکان دار نے دو چمچے شکر کے روٹیوں پر ڈال دیتا وہ مزے سے شکر کے ساتھ روٹی کھانا شروع کر دیتے دوکان کے سامنے پانی کا نلکا لگا تھا جہاں سے آنے والے پانی نکال کر پی رہے تھے نلکے کے ساتھ ہی دو کنالیاں پڑی تھیں ایک میں پانی بھرا ہوا تھا دوسری میں اناج گندم باجرہ وغیرہ ڈالا ہوا تھا پرندے وہاں سے پانی اور اناج سے اپنی بھوک مٹا رہے تھے اِس طرح اِس چھوٹے سے دوکاندار نے انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں کی بھوک پیاس کا بھی بندو ست کر دیا تھا گرمی کے ستائے پرندے اناج اور پانی کی کنالیوں میںاچھل کود کر کے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے دوکاندار مطمئن مسرور نظروں سے پرندوں کی آوازیں اور اچھل کود کو دیکھ رہا تھا میںروحانی طور پر خاص برکت چاروں طرف پھیلی محسوس کر رہا تھا جس جگہ پر خدا کی مخلوق کا خیال رکھا جا رہا ہو اُن کی پیاس اور بھوک کا بندوست کیا گیا ہو وہاں پر یقینا خدا کی خاص برکت کا احساس ہی ہو گا روٹی کی تلاش میں دور دور سے بھوکے آکر روٹی لے رہے تھے دوکاندار جب بھی کسی کو روٹی کی پرچی دے کر کہتا سامنے تندور سے جا کر روٹیاں لے لو تو اُس وقت لینے والے کے چہرے پر تشکر کے جو چراغ روشن ہوتے۔
اُن کی روشنی دل و دماغ کے اندھیروں کو اجالوں میں بد ل رہی تھی میں یہاں پر آکر بہت باطنی خوشی محسوس کر رہا تھا یہ چھوٹا سا پرچون فروش واقعی بڑا انسان تھا جس کے سامنے ہمالیہ جیسے بلند انسان بونے بن جاتے ہیں اِسی دوران دوکاندار نے ہمیں دیکھ لیا میرے ساتھ آنے والا دوست دوکاندار کا بھانجا تھا وہ بولا ماموں جان ہم لوگ اِدھر سے گزر رہے تھے تو سوچا آپ کو سلام کر تے چلیں دوکاندار بہت خوش ہو ا گھر والوں کی خیریت دریافت کی ساتھ ہی بولا کھانے کا وقت ہے کھانا کھا کر جانا میں نے پہلے ہی دوست سے کہا تھا کہ میرا تعارف نہ کر انا کہ میں کون ہو ں اور یہاں کیا کرنے آیا ہوں اِس لیے بھانجے نے میرا تعارف اپنا استاد کہہ کر ا دیا ۔ اب دوکاندار ہمیں لے کر دوکان کے اوپر چھوٹے سے چوبارے میں آگیا میں بہت متجسس تھا کہ یہ چھوٹا سا لنگر خانہ کیسے کس کے کہنے پر یہاں نہایت کامیابی سے چل رہا ہے تھوڑی دیر میں ہی تندور کی گرما گرم روٹیاں چنوں کے ساتھ آگئیں تو ہم بھی اِس خاص لنگر خانے کے فیض یا فتگان میں شامل ہوگئے جو لوگ لنگر کی برکت جو جانتے ہیں وہ لنگر کی خاص روحانی لذت سے واقف ہیں کہ لنگر کے چند نوالے کس طرح جسم و باطن کو خاص سر شاری سے ہمکنار کرتے ہیں ہم نے بھی خوب جی بھر کھانا کھایا کھانے کے بعد گرما گرم دودھ پتی آگئی تو میں اپنے مطلب کی بات پر آگیا اور پوچھا جناب یہ لنگر خانے کا خیال کس طرح آیا اللہ نے یہ اتنا بڑا کام آپ سے کس طرح لیا تو اُس کے چہرے پر عقیدت و محبت کا خاص رنگ چمکا اور اُس نے دیوار پر لگی کسی نیک بزرگ کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ میرے مرشد سرکار کی کرامت ہے۔
میں بزرگوں کو نہیں مانتا تھا لیکن پھر میرا بڑا بیٹا بیمار ہوا تو ڈاکٹروں حکمیوں کے پاس جا جا کر جب شفا نہ ملی تو مختلف بزرگوں کے پاس جانا شروع کر دیا ِاِسی دوران میں اپنے بابا جی کے پاس گیا میرا بیٹا بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتا تھا باباجی کے پاس جانے کے بعد وہ دوبارہ بے ہوش نہیں بلکہ مکمل صحت مند ہو گیا تو میں روحانیت بزرگوں کا قائل ہوا باباجی کا مرید ہوا خود کو اُن کی غلامی میں دے دیا درخواست کی کوئی حکم لگائیں تو انہوں نے کہا اپنی دوکان پر لنگر خانے کا اہتمام کر و تو میں بولا جناب بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے تو انہوں نے چھوٹے پیمانے پر شروع کر و تو میں نے مفت روٹی کا بورڈ لکھ کر لگا دیا جس دن سے یہ نیک کام شروع کیا کمائی بڑھ گئی برکت پڑ گئی اب بہت سارے لوگ روٹی لے کر جاتے ہیں میرے ساتھ اِس نیکی میں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اِس لیے میں نے ایک خالی کنستر ( ڈبا ) رکھا ہوا ہے جس کا دل کرتا ہے وہ اِس کستر میں پیسے ڈال جاتا ہے اِس طرح وہ بھی اِس لنگر خانے میں شامل ہو جاتا ہے وہ اپنے مرشد کی بہت تعریفیں کرر ہا تھا اور میں برصغیر پاک و ہند پر پھیلے بزرگوں کے لنگر خانوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اولیا حق نفوس قدسیہ بزرگوں نے ہندوستان کے چپے چپے پر لنگر خانے کھول کر ہندو دھرم کو پرزے پرزے کر دیا واپسی پر میرے پاس جتنے پیسے تھے وہ میں نے لنگر خانے کے ڈبے میں ڈال دئیے کہ شاید کسی بھوکے کی بھوک مٹنے سے ہی راہ نجات مل جائے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org