برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی مخدوش صورت کے حوالے سے برطانوی پارلیمان میں زبردست بحث ہوئی، جس پر بھارت نے سخت اعتراض کیا ہے۔ برطانیہ کا کہنا کہ کشمیر پر اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
برطانیہ میں کل جماعتی ارکان پارلیمان کے ایک گروپ نے ایوان زیریں یعنی دارالعوام میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بحث کے لیے ایک قرارداد پیش کی تھی۔ بھارت نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقدس ایوان کا استعمال غلط مقاصد کے لیے کیا گيا۔
کشمیر کی صورت حال پر برطانوی پارلیمان میں جو قرارداد پہلے پیش کی گئی تھی اس کے تحت مارچ 2020 میں یہ بحث ہونی تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا کے سبب اسے موخر کر دیا گیا تھا۔ 23 ستمبر جمعرات کو اس پر بحث کا آغاز لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان ڈیبی ابراہمس نے کیا۔
ڈیبی نےگزشتہ برس فروری میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہ انہیں پاکستان نے کشمیریوں تک مکمل رسائی مہیا کی تھی اور وہاں انہوں نے حقوق سے متعلق کھل کر بات بھی کی تھی۔
انہوں نے کہا، ’’پاکستانی حکومت نے ہمیں بلا روک ٹوک رسائی دی اور ہم نے اپنی ان ملاقاتوں کو انسانی حقوق کے مسائل سے متعلق ایسے سوالات پوچھنے کے لیے استعمال کیا، جن کا اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں طور پر ذکر کیا ہے۔‘‘
ڈیبی ابراہمس کا کہنا تھا کشمیر سے متعلق بحث کسی ملک کے خلاف یا کسی کی حمایت میں نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی پاسبانی کے لیے ہے۔ ان کا کہنا تھا،’’اس تنازعے میں سہ فریقی امن عمل میں کشمیریوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔‘‘
اس بحث میں تقریبا سبھی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دو درجن اراکین پارلیمان نے حصہ لیا اور بعض نے بھارت کی جمہوری قدروں کی حمایت میں بھی آواز اٹھائی۔ تاہم بیشتر نے کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی بھی کی۔
لیبر پارٹی کی ایک اور رکن پارلیمان ناز شاہ نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کشمیر سے متعلق نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا، ’’دنیا بھر میں اور خاص کر خطے کے لاکھوں کشمیریوں کے ذہنوں میں یہی سوال ہے کہ آخر، ’گجرات کا قصائی‘ تقسیم ہند کے دور کے نہ حل ہونے والے اس تنازعے کا فیصلہ کیسے کرے گا؟‘‘
بورس جانسن کی حکومت میں ایشیائی امور کی وزیر امانڈا ملنگ نے اس بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر سے متعلق برطانوی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس کی نظر میں یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کا دو طرفہ معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’حکومت کشمیر کی صورت حال کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے تاہم یہ ذمہ داری بھارت اور پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق وہ اس مسئلے کا پائیدار سیاسی حل تلاش کریں۔ اس کا حل تلاش کرنا یا اس میں ثالثی کا کردار ادا کرنا برطانیہ کا کام نہیں ہے۔‘‘
بھارتی حکومت نے برطانوی پارلیمان میں کشمیر سے متعلق بحث پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اپنے اس روایتی موقف کا اعادہ کیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔
بھارتی حکومت نے اس حوالے سے اپنے ایک سخت رد عمل میں کہا کہ کشمیر سے متعلق کسی بھی موضوع پر کسی بھی فورم میں کوئی بھی دعوی کرنے سے پہلے اس کی مستند حقائق سے تصدیق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے دلائل سے ثابت بھی کیا جانا چاہیے۔
لندن میں بھی بھارتی ہائی کمیشن کی جانب جاری ایک بیان میں اس بحث پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی گئی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف مبینہ طور پر نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گيا۔ ان کا اشارہ ممکنہ طور پر لیبر رکن پارلیمان ناز شاہ کے اس بیان کی جانب تھا، جس میں انہوں نے مودی کو گجرات کا قضائی قرار دیا تھا۔
بیان میں کہا گیا،’’بہت افسوس کے ساتھ ہائی کمیشن آف انڈیا نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ ساتھی جمہوری ملک کے ایک بڑے پر وقار ادارے کا استعمال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے منتخب رہنما کے خلاف بدسلوکی کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ناز شاہ نے اپنے خطاب میں بھارتی ریاست گجرات کے سن 2002 کے مسلم کش فسادات کی جانب اشارہ کیا تھا۔ اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی تھے اور ان کی حکومت کے دوران ہونے والے مذہبی فسادات میں چند روز کے اندر ہی تقریبا دو ہزار مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ دو برس قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے ہی خطے کی تمام سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں اور تبھی سے سینکڑوں کشمیری رہنما جیلوں میں قید ہیں۔