جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی سات مرکزی سیاسی جماعتوں کے اراکین نے انتخابات سے صرف دو روز قبل ٹیلی ویژن پروگرام میں آخری مرتبہ جرمن عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس مکالمے میں گرین پارٹی کی انالینا بیئربوک، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اولاف شولس، کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے آرمین لاشیٹ، فری ڈیموکریٹس کے کرسچن لنڈر، سی ایس یو کے مارکس سوڈر، آلٹرنیٹیو فار جرمنی کی ایلس وائیڈیل اور لیفٹ پارٹی کی جانین ویسلر نے حصہ لیا۔
اس مباحثے سے قبل عوامی رائے عامہ کے ایک سروے کے مطابق ایس پی ڈی کو 25 فیصد ، سی ڈی یو کو 23 فیصد اور گرین پارٹی کو 16.5 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔ فری ڈیموکریٹس کو 11 فیصد اور اے ایف ڈی کو دس فیصد افراد کی حمایت حاصل ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی کی اگلی حکومت مخلوط حکومت ہو گی اور یہ مخلوط حکومت بنانا ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد ممکن ہوگا۔
سات میں سے چھ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرروت ہے۔ گرین پارٹی اور لیفٹ پارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ جرمنی کو کوئلے کے پاور پلائٹس کو فوری طور پر ختم کردینا چاہیے۔ حالیہ پلان کے تحت جرمنی سن 2038ء تک کوئلے سے توانائی حاصل کرنا مکمل طور پر بند کر دے گا۔ اولاف شولس نے زور دیا کہ جرمنی کو توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ آرمین لاشیٹ کا کہنا تھا کہ جرمنی کو کیمیکل اور اسٹیل انڈسٹری کو توسیع دینا ہوگی۔ صرف انتہائی دائیں باز وکی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی ایلیس وائیڈیل کا کہنا تھا کہ عالمی درجہ حرارت صرف انسان کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے جرمنی میں نئے طرز کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جرمنی کی اس انڈسٹری کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
ملک کے وزیر خزانہ اولاف شولس نے کہا کہ جرمنی کو دفاع کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لیفٹ پارٹی کی ویسلر کا کہنا تھا کہ ” زیادہ اسلحہ دنیا کو محفوظ نہیں بنائے گا” اور یہ پیسہ کہیں اور خرچ کیا جانا چاہیے۔
شولس نے یہ بھی کہا کہ جرمنی کو فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جرمن حکومت سمجھ سکتی ہے کہ فرانس کو امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے نئے اتحاد ‘اے یو کے یوایس’ جو کہ فرانس کی آسٹریلیا کے ساتھ آب دوز کی ڈیل کی ناکامی کی بنا پر کیا خدشات ہیں۔
سی ڈی یو کے لاشیٹ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جرمنی میں روس کی نارڈ سٹریم ٹو گیس پائپ لائن کو کام کرنے دیں گے۔ یہ مشرقی یورپی ممالک اور امریکا میں ایک متنازعہ موضوع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لاشیٹ کا کہنا تھا،”جی ہاں، ہمیں یہ اقتصادی منصوبہ چاہیے کیوں کہ اگر ہم توانائی کے حصول کے دیگر ذرائع بند کر رہے ہیں تو ہمیں گیس کی ضرورت ہوگی۔ لیکن میرے لیے یہ اہم ہے کہ حکومت اس بات کو یقنی بنائے کہ یوکرائن جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے گی وہاں کوئی نقصان نہ پہنچے اور اگر روس اس معاہدے کا احترام نہیں کرتا تو اس ڈیل کو فوری روک دیا جائے گا۔” گرین پارٹی کی بیئربوک کا کہنا تھا کہ یورپ کو چین کے حوالے سے ایک متحد سخت پالیسی کی ضرورت ہے۔
اتوار چھبیس ستمبر کو جرمنی میں عام انتخابات میں قریب ساٹھ ملین ووٹررز اپنے ملک کے نئے چانسلر اور نئی پارلیمنٹ کو منتخب کریں گے۔