فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی حکام کو سنہ 1967 کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں بہ شمول مشرقی بیت المقدس سے نکلنے کے لیے ایک سال کی ڈیڈلائن مقرر کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں سیشن سے پہلے ورچوئل خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک اس سال کے دوران سرحدوں کی حد بندی اور تمام حتمی حیثیت کے مسائل کو بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی خاطر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے لیے اسرائیل کو ایک سال کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ واپسی کے لیے اقدامات کرے۔
فلسطینی صدر نے مزید کہا اگر اسرائیل ہمارے مطالبے پر سنہ 1967ء کی حدود میں واپس نہیں جاتا تو ہم ان علاقوں میں اسرائیل کا تسلط کیوں کر تقسیم کریں؟
عباس نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ فلسطینی قوم کے لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے ضمانت دی گئی ریاست، آزاد اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے اقدامات کرے۔ جب عالمی برادری یہ تسلیم کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے فلسطینیوں کو تحفظ، آزادی اور امن کی فراہمی لازمی ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی قوم کو اس کے ضمانت شدہ حقوق دلائے جائیں۔
فلسطینی صدر نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائیں۔ ان میں تازہ ترین قرارداد جنرل اسمبلی کی جانب سے جون 2018 میں اپنے ہنگامی خصوصی اجلاس میں جاری کی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا ہم امن کے لیے متحد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تحفظ کے طریقہ کار کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ اگست 2018 میں جاری کی گئی اس کی رپورٹ کی سفارشات پرعمل درآمد کرایا جائے جس میں سنہ 1967 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں بہ شمول یروشلم سمیت سرحدوں پر اس میکانزم کو فعال کیا جائے۔
عباس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی امن کانفرنس کا مطالبہ کریں تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن اقدام کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جاسکے۔