بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کا ترجمان سمجھے جانے والے ہفت روزہ ‘پانچ جنیہ‘ نے امریکی کمپنی ایمازون کو ‘ایسٹ انڈیا کمپنی 2.0‘ قرار دیتے ہوئے اس پر بھارت کی ثقافت کے خلاف کام کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
ہندو قوم پرست جماعتوں اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا ترجمان سمجھے جانے والے ہندی ہفت روزہ’پانچ جنیہ‘ نے اپنے تازہ شمارے میں امریکا کی سب سے بڑی ای۔ کامرس کمپنی ایمازون کو ‘ایسٹ انڈیا کمپنی 2.0‘ قرار دیتے ہوئے اس پر بھارت کی ثقافت کے خلاف کام کرنے نیز اپنے مفاد میں حکومتی پالیسیاں بنانے کے لیے کروڑوں روپے رشو ت دینے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے،”ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا پر قبضہ کرنے کے لیے اٹھارہویں صدی میں جو کچھ کیا تھا وہی سب کچھ ایمازون کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔”
’پانچ جنیہ‘ کے ایڈیٹر ہتیش شنکر نے نئے شمارے کا سرورق ٹوئٹ کیا ہے، جس پر ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس کی تصویر ہے۔ یہ شمارہ 3 اکتوبر کو بازار میں آئے گا۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ آر ایس ایس کے اشارے کے بغیر وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ اور دیگر وزرائے اعلی نیز گورنروں کی اور تمام اہم آئینی و دیگر عہدوں پر تقرری اور حکومت کی تمام اہم پالیسیاں آر ایس ایس کی منظوری کے بعد ہی روبہ عمل آتی ہیں۔
’پانچ جنیہ‘ نے ایمازون کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بھارتی منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے،”اس نے ایسا کرنے کے لیے معیشت، سیاست اور بھارتی شہریوں کی انفرادی آزادی پر قبضے جمانے شرو ع کر دیے ہیں۔”
اخبار نے ایمازون کے بھارتی عہدیداروں پر رشوت دینے کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا ہے،”آخر کمپنی نے ایسا کون سا غلط کام کیا تھا، جس کی وجہ سے اسے رشوت دینے کی ضرورت پڑ گئی۔ آخر یہا ں کے عوام اس کمپنی کو بھارت کے انٹرپرینیورشپ، اقتصادی آزادی اور ثقافت کے لیے خطرہ کیوں سمجھتے ہیں۔”
ایمازون پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے کئی پراکسی کمپنیاں بنا رکھی ہیں اور اپنے حق میں پالیسیاں بنانے کے لیے بھارتی عہدیداروں کو بھاری رشوت دی ہے۔
اپوزیشن جماعت کانگریس نے ان الزامات کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مودی حکومت نے کہا تھا کہ ایمازون کے خلاف عائد رشوت کے الزامات کی مکمل تفتیش کرائی جائے گی۔ حالانکہ ایمازون نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور ان کی اپنی سطح پر انکوائری کرانے کا اعلان کیا تھا۔
بھارتی میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق ایمازون نے بھارت میں اپنے نمائندوں کے ذریعہ سن 2018 سے سن 2020کے دوران بھارتی عہدیداروں کو 8546 کروڑ بھارتی روپے یا تقریباً 1.2 ارب امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔ ایمازون ایک بھارتی کمپنی فیوچر گروپ کے ٹیک اوور کے معاملے میں بھی قانونی اڑچن کا شکار ہو گئی ہے۔ بھارت میں کمپنیوں کے مابین مسابقت کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ کمپٹیشن کمیشن آف انڈیا(سی سی آئی) اس کی تفتیش کر رہا ہے۔
’پانچ جنیہ‘ میں شائع مضمون میں ایمازون کے ویڈیو پلیٹ فارم ‘پرائم ویڈیو‘ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔اس میں ایمازون پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر ایسی فلمیں اور ویب سریز ریلیز کررہی ہے، جو بھارتی ثقافت کے خلاف ہیں۔
آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم سودیشی جاگرن منچ ایمازون کے خلاف کارروائی کے لیے ایک عرصے سے مطالبہ کرتا رہا ہے۔
ہندو قوم پرستی کی ترویج و اشاعت اور مسلم مخالفت کے لیے مشہور’پانچ جنیہ‘ اس سے پہلے بھی کئی دیگر کمپنیوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔
چند ہفتے قبل ہی اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بھارتی ملٹی نیشنل کمپنی انفوسس کو نشانہ بنایا تھا۔ انفوسس دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات فراہم کرتی ہے۔بھارتی کارپوریٹ ورلڈ کی متعدد اہم شخصیات نے اس طرح کے الزام پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات سے بھارتی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بھی کہا تھا کہ انفوسس کے متعلق یہ مضمون ‘درست نہیں‘ ہے۔
اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہونے کے بعد آر ایس ایس کے ترجمان سنیل امبیڈکر نے ٹوئٹ کرکے یہ وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تھی، ”پانچ جنیہ آر ایس ایس کا ترجمان نہیں ہے اور مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، یہ ضروری نہیں کہ آر ایس ایس اس سے متفق ہو۔” حالانکہ بھارت میں عام تاثر یہی ہے کہ ہندی ہفت روزہ’پانچ جنیہ‘ اور انگلش ہفت روزہ ‘آرگنائزر‘ آر ایس ایس کے ترجمان ہیں کیونکہ ان کے مدیران کا انتخاب آرایس ایس کی ایک کمیٹی کرتی ہے اور ان کے دفاتر بھی آر ایس ایس کی عمارت میں ہی واقع ہیں۔
’پانچ جنیہ‘نے الزام لگایا تھا کہ بھارتی انکم ٹیکس محکمے کے نئے آفیشل پورٹل کو تیار کرنے والی کمپنی انفوسس نے جان بوجھ کر اس میں کچھ پیچیدگیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے الزام لگایا تھا کہ انفوسس نے ایسا مودی حکومت کو بدنام کرنے کے مقصد سے کیا تھا۔ انفوسس کے اعلی عہدیدار سابقہ کانگریسی حکومت کے قریبی رہے ہیں۔
مودی کابینہ کے ٹیکسٹائل اور کامرس کے وزیر پیوش گوئل نے بھی آٹو موبائل اور دیگر اشیاء بنانے والی بھارت کی معروف ملٹی نیشنل کمپنی ٹاٹا گروپ پر نکتہ چینی کی تھی۔ گوئل نے کہا تھا کہ اس کمپنی کی سرگرمیاں قومی مفادات کے مطابق نہیں ہیں۔